کیا آئن اسٹائن غلط تھے؟
گذشتہ ہفتے کششِ ثقل کی لہروں کی براہِ راست دریافت نے ایک بار پھر البرٹ آئن اسٹائن کی سائنسی دور اندیشی کی طاقت کو ثابت کر دیا ہے۔ ایک بار پھر آئن اسٹائن درست ثابت ہوئے، کیونکہ انہوں نے کائنات کے اس مظہر کے بارے میں بالکل درست پیشگوئی کی تھی۔
مگر گذشتہ ہفتے کی کامیابی کے ساتھ ایک گہرا اور حیران کن سوال بھی پیدا ہوتا ہے: کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ آئن اسٹائن سائنس کے بارے میں درست ہوں، مگر جس وسیع تر تناظر میں ہم انسان سائنس کو رکھتے ہیں، اس کے بارے میں غلط ہوں؟
میں سمجھاتا ہوں۔
فزکس کے بارے میں سوچنا کئی وجوہات کی وجہ سے اہمیت رکھتا ہے۔ یہ ایسا مضمون ہے جس سے جی پی ایس سے لے کر تھری ڈی پرنٹرز تک زبردست ٹیکنالوجیز جنم لے رہی ہیں، اور ٹوائلٹس فلش کرنے سے بادلوں کے اوپر اٹھنے تک یہ فزکس ہی ہے جو ہمارے اردگرد موجود دنیا کے بارے میں ہمارے سوالات کے بارے میں جوابات دیتی ہے۔
مگر فزکس کو پسند کرنے کے لیے ایک اور وجہ بھی ہے، یعنی وہ دنیا جو ہم نہیں دیکھ سکتے۔ ہمارے روز مرہ کے تجربات کے پسِ پردہ کیا چیزیں کارفرما ہیں، ان پر فزکس ہمیں نئے نکتہ نظر فراہم کرتی ہے۔ اس طرح دیکھیں تو فزکس صرف 'معلومات' نہیں بلکہ 'حقیقت' محسوس ہوتی ہے۔
مگر جب سائنس وہاں تک پہنچ جاتی ہے جس کے بعد ہم دنیا کو اپنے الفاظ میں بیان کرنے کی قابلیت کھو بیٹھتے ہیں، تو وہاں کیا کوئی اور چیز بھی موجود ہے جس سے کام لیا جا سکتا ہے؟ طاقتور مگر مجرد ریاضی اور مہارت سے تیار کیے گئے آلات کے علاوہ کیا 'صرف حقائق' سے آگے بھی کوئی چیز ہے جس کا ماہرینِ فزکس کو کائنات کے بارے میں عظیم الشان دعوے کرتے وقت خیال رکھنا چاہیے؟
واضح طور پر کہیں تو کیا ریاضی اور دستیاب ڈیٹا سے آگے کوئی فلسفہ، کوئی مافوق الطبعیات (میٹا فزکس) موجود ہے؟ اور اگر پس منظر میں کوئی میٹا فزکس موجود ہے، تو کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ تھیوری کے تجربات اور ڈیٹا کی صورت میں درست ہونے کی صورت میں بھی یہ میٹا فزکس غلط ہو؟
یہ سوال جِمینا کینالیس کی تحریر کردہ اس حیران کن کتاب دی فزیسسٹ اینڈ دی فلاسفر کا بنیادی سوال ہے جو میں آج کل پڑھ رہا ہوں۔ یہ کہانی ہے البرٹ آئن اسٹائن کی (جنہیں تعارف کی کوئی ضرورت نہیں) اور ہینری برگسن کی (جنہیں شاید تعارف کی ضرورت ہے۔)
بیسویں صدی کی ابتدائی دو دہائیوں میں فرانسیسی فلسفی ہینری برگسن آئن اسٹائن سے کہیں زیادہ مشہور تھے۔ کینالیس کے نزدیک یہ بھی ایک دلچسپ کہانی ہے کہ آج کل لوگ آئن اسٹائن کو برگسن سے زیادہ کیوں جانتے ہیں۔ یہ کہانی اس بارے میں ہے کہ کس طرح سائنس کو دنیا کی ہر چیز پر حرفِ آخر تسلیم کیا جانے لگا، یہاں تک کہ 'وقت' جیسے باریک اور مشکل موضوع پر بھی۔
یہ 1922 میں تب شروع ہوا جب آئن اسٹائن اور برگسن ایک غیر متوقع مگر اہم مباحثے میں ملے۔ آئن اسٹائن کو پیرس میں ان کے نظریہ اضافت (تھیوری آف ریلیٹیویٹی) پر پریزنٹیشن دینے کے لیے بلایا گیا تھا۔ آئن اسٹائن کے کام میں وقت کو کلیدی اہمیت حاصل تھی مگر یہ برگسن کے فلسفے کا بھی کلیدی موضوع تھا۔ 'وقت کیا چیز ہے'، اس پر دونوں کے متضاد نظریوں نے انہیں تصادم کی راہ پر گامزن کر دیا۔
مباحثے میں برگسن نے یہ بات واضح کی کہ انہیں آئن اسٹائن کی تھیوری کی ریاضیاتی منطق پر، یا اس تھیوری کی تصدیق کرنے والے ڈیٹا پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ مگر برگسن کے نزدیک ریلیٹیویٹی ایسی تھیوری نہیں تھی جو وقت کو اس کی بنیادی، فلسفیانہ سطح پر بیان کرے۔ اس کے بجائے ان کا دعویٰ تھا کہ یہ تھیوری گھڑیوں اور ان کے رویے کے بارے میں ہے۔ برگسن نے آئن اسٹائن سے کہا کہ وہ اس باریکی کو نظرانداز کر رہے ہیں۔
برگسن کے فلسفے میں وقت کی اہمیت صرف پیمائش سے کہیں زیادہ ہے۔ ان کے نزدیک وقت انسانی زندگی کا اتنا اہم حصہ ہے کہ اسے سمجھنے کے لیے آپ کو گھڑیوں اور یہاں تک کہ نفسیاتی نقطہ نظر سے بھی آگے بڑھنا ہوگا۔ اس کے بجائے وقت دنیا کو محسوس کرنے سے جڑا ہوا ہے۔ ایک طرح سے دیکھیں تو وقت انسان کا جوہر ہے، اور یوں وجودیت کا جوہر۔ برگسن کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف سائنس وقت کے مطلب یا اہمیت کو بیان نہیں کر سکتی۔
تو پیرس میں اس دن برگسن آئن اسٹائن کی تھیوری پر تنقید نہیں کر رہے تھے بلکہ اس فلسفے پر تنقید کر رہے تھے جس نے اس تھیوری کے گرد جنم لینا شروع کر دیا تھا، اور جسے سائنس کا حصہ قرار دیا جا رہا تھا۔ یہ اس تھیوری کی پوشیدہ میٹا فزکس تھی جسے برگسن نے چیلنج کیا۔ برگسن نے آئن اسٹائن کو بتایا کہ وقت کے مطلب کو پوری طرح سمجھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ آپ اس کا فلسفے کی مدد سے جائزہ لیں۔
مگر آئن اسٹائن نہیں مانے۔ برگسن کے چیلنجز کے جواب میں مایہ ناز ماہرِ فزکس نے اپنا مشہور جملہ داغا: "فلسفیوں والا وقت وجود نہیں رکھتا۔"
تو آئن اسٹائن کی تھیوری کی میٹا فزکس کیا ہے؟ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ اس سوال پر کتابوں کی کتابیں تحریر کی جا سکتی ہیں، مگر ایک مضبوط مثال پر غور کرتے ہیں۔ ریلیٹیویٹی میں زمان اور مکان دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں، بلکہ یہ ایک چار جہتی صورت اختیار کر لیتے ہیں جسے اسپیس ٹائم یعنی زمان مکان کہا جاتا ہے۔ مگر جب آپ ایسا کرتے ہیں، تو کچھ بہت عجیب سا ہوتا ہے۔
اسپیس ٹائم کی اہم بات یہ ہے کہ اس میں وہ تمام واقعات موجود ہیں، جو آج تک ہوئے ہیں۔ اس میں وہ واقعات بھی ہیں جو ہوں گے۔ تو کائنات کی اس بڑی، چار جہتی تصویر میں جولیئس سیزر کو خنجر بھی مارا جا رہا ہے، تو جو کافی آپ اگلے منگل کو اپنے کپڑوں پر گرانے والے ہیں، وہ بھی موجود ہے۔ اور وہ لمحہ بھی موجود ہے جب آپ جنوری 2017 میں امریکا کے نئے صدر کو حلف اٹھاتے ہوئے دیکھیں گے۔ حقیقت میں ہر واقعہ جو آپ کے ساتھ پیش آئے گا، یہاں تک کہ آپ کی موت بھی، ایک تار پر ٹنگے ہوئے کپڑوں کی طرح اسپیس ٹائم میں موجود ہے۔ ماہرینِ فزکس اسے آپ کی ورلڈ لائن کہتے ہیں۔
تو کیا واقعی وقت ایسے ہی کام کرتا ہے؟ کیا تمام واقعات آئن اسٹائن کی ریلیٹیویٹی کے مطابق اس کائنات (block universe) میں موجود ہیں؟ کیا ہر وہ واقعہ جو آپ کے ساتھ پیش آنے والا ہے، اس چار جہتی اسپیس ٹائم میں مقید ہے اور وقت آنے پر وہ واقعہ آپ تک پہنچ جائے گا؟
اس نظریے کو اکثر اوقات "chrono-geo-determinism" کہا جاتا ہے (جیو والا حصہ اس لیے ہے کیونکہ آئن اسٹائن کی تھیوری اسپیس ٹائم کی جیومیٹری کے بارے میں ہے۔) ایک ثابت شدہ سائنسی تھیوری سے جو حقیقت جنم لیتی ہے، اس کی فطرت کے بارے میں فلسفیانہ نظریے کی یہ ایک مثال ہے۔ یہی میٹا فزکس ہے اور یہ وہی چیز ہے جس کے خلاف برگسن نے دلائل پیش کیے تھے۔
برگسن اور اس دور میں موجود دوسرے لوگوں کے نزدیک ریاضیاتی فزکس/ڈیٹا اور بلند درجے کی تشریح، یعنی وہ فلسفہ جس کے تحت آپ وہ چیز سمجھائیں، میں فرق ہے۔ اور اس طرح آئن اسٹائن ایک ہی وقت میں صحیح بھی ہوسکتے ہیں اور غلط بھی۔ وہ سائنس کے بارے میں واضح طور پر درست ہیں، مگر وہ اس سائنس سے جڑی وقت کی تشریح کے متعلق غلط بھی ہوسکتے ہیں۔
تو پھر ہم برگسن کے دعووں سے کیا نتیجہ اخذ کریں؟
میں وقت کے حوالے سے برگسن کے فلسفے پر اتنی معلومات نہیں رکھتا کہ اس کی تائید یا مخالفت کروں، مگر مجھے لگتا ہے کہ درست سائنسی تھیوریز اور ان تھیوریز کے اطراف جو میٹا فزکس جنم لیتی ہے، ان میں علیحدگی کرنے کا برگسن کا خیال قابلِ غور ہے۔
ماہرِ فزکس ڈیوڈ مرمن نے ایک دفعہ کہا تھا کہ ہم ماہرینِ فزکس کے پاس ریاضیاتی فارمولوں کو دنیا میں وجود رکھنے والی حقیقی چیزوں میں بدلنے کا طریقہ موجود ہے۔ ہم دنیا میں ہونے والے واقعات سمجھانے میں ان کی کامیابی سے یہ سمجھتے ہیں کہ یہ فارمولے ان حقیقی چیزوں (اکثر اوقات نادیدہ) کا متبادل ہوسکتے ہیں جو دنیا میں موجود ہیں مگر نظر نہیں آتیں۔
مگر مرمن کے نزدیک فارمولے ہمیشہ ایک تجریدی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ انتہائی طاقتور اور انتہائی کارآمد کہانیاں ہوتی ہیں جو کچھ حقیقت کا احاطہ تو کرتی ہیں، مگر مکمل حقیقت کا نہیں۔
فلسفے کی شاخ جسے مظہریات (فینومینولوجی) کہا جاتا ہے، دنیا کی براہِ راست سمجھ پر زور دیتی ہے۔ مظہریات کے نظریے سے دیکھیں، تو سائنسی تھیوریاں اور تحقیق کسی چیز کا تجربہ کر لینے کے بعد ہونی چاہیئں۔ جرمن ماہرِ مظہریات مارٹن ہیڈیگر نے اس بات پر زور دیا تھا کہ "وجود"، یعنی "ہونے" (فعل) کو سمجھنے کا مسئلہ اب بھی سائنس یا فلسفے سے حل نہیں ہوا ہے۔ اس نقطہ نظر سے دیکھیں تو سائنس کو "تمام سوالات" کے جواب کے لیے کافی قرار دینے کا مطلب ہے کہ "وجود" کا سوال مکمل طور پر بھلا دیا گیا ہے۔
مجموعی طور پر دیکھیں تو یہ تمام نقطہ ہائے نظر ایک ایسے امکان کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو مجھے کافی پریشان کن لگتا ہے۔
یہ بلاگ سائنس اور کلچر کے نام ہے۔ برگسن اور آئن اسٹائن کے درمیان اس بحث میں شاید اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے ایک مختلف طریقہ موجود ہو کہ سائنس انسانی تجربے میں کس طرح فٹ ہوتی ہے۔
انسان ہونا، دنیا کا مرکز ہونا ایک زبردست اور خوبصورت راز ہے۔ سائنس کی توجیہات اس راز کو سمجھنے کی ایک راہ ہے، مگر واحد راہ نہیں۔
اور اگر یہ سچ ہے، تو ہمارا اگلا قدم کیا ہوگا؟
یہ مضمون نیشنل پبلک ریڈیو کے بلاگ 13.7 پر شائع ہوا، اور بہ اجازت دوبارہ شائع کیا گیا ہے.
ایڈم فرینک 13.7 بلاگ کے شریک بانی ہیں، اور یونیورسٹی آف روچیسٹر میں ایسٹروفزکس کے پروفیسر ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: adamfrank4@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔