نقطہ نظر

نیب پر تنقید

سیاستدانوں کی نیب پر تنقید کا مطلب شاید یہ ہوسکتا ہے کہ نیب درست کام کر رہا ہے.

احتساب کو کوئی بھی پسند نہیں کرتا اور نہ ہی حکومت یہ چاہتی ہے کہ حکومتی معاملات میں ہونے والی بدعنوانی سامنے آئے، مگر ہمارے ملک کی افسوسناک حقیقتیں ایسی ہیں کہ اس کام کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔

ایک مضبوط اور بالادست ادارے کی جانب سے حکومت کے رویے پر مسلسل نظر رکھنا ضروری ہے تاکہ بدعنوانی کا پتہ لگایا جا سکے، تفتیش کی جا سکے اور مقدمات چلائے جا سکیں، پھر چاہے یہ بدعنوانی کہیں بھی ہو۔

مگر افسوس کی بات ہے کہ یہ ہمارے ملک کی واحد افسوسناک حقیقت نہیں ہے۔ ماضی میں بدعنوانی کے خلاف مہم نے سیاسی رنگ بھی اختیار کیا ہے، اور کئی مقامات پر یہ مہم صرف چند افراد کے خلاف کارروائی تک محدود رہی ہے۔

نتیجتاً یہ سمجھنا مشکل ہے کہ قومی ادارہ برائے احتساب (نیب) کب واقعی بدعنوانی کی تحقیقات کر رہا ہے، اور کب سیاسی مفادات کی تکمیل کے لیے اس کی ڈوریاں ہلائی جا رہی ہیں۔

آج ہمیں ایسی صورتحال کا سامنا ہے کہ جہاں وزیرِ اعظم اور وزرائے اعلیٰ سمیت سب ہی نیب سے نالاں نظر آتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ شاید نیب درست کام کر رہا ہے، یا شاید انسدادِ بدعنوانی کے اس محکمے کو راولپنڈی کی تائید و نصرت حاصل ہے۔

ٹھوس شواہد کی عدم موجودگی میں اس سوال کا جواب دینا مشکل ہوگا۔

مگر جو چیز دیکھنی مشکل نہیں ہے، وہ یہ کہ نیب پر تنقید کرنے والے یہ نہیں بتاتے کہ پاکستان میں احتساب کو مستحکم کرنے کے لیے کیا متبادل اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ احتساب کو حکومتی کنٹرول میں رکھنے نے ماضی میں بدعنوانی کے الزامات کو سیاست کی نذر ہونے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

مثلاً 2004 میں نیب نے پاکستان مسلم لیگ ق کی قیادت کو کلین چٹ دے دی جبکہ حزبِ اختلاف کے قائدین کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات جاری رکھے۔

اور کیا یہ بھی یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ 1990 کی دہائی کے اواخر میں نواز شریف کی گذشتہ حکومت کے دوران احتساب بیورو کیسے کام کرتا تھا؟ آج بھی اس حوالے سے شواہد موجود ہیں کہ بدعنوانی کیسے صرف ایک سیاسی فٹ بال بن چکی ہے۔

پی ٹی آئی، جس نے حال ہی میں خیبر پختونخواہ میں اپنے احتساب قوانین میں اصلاحات کی ہیں تاکہ احتساب کمیشن کے اختیارات کم کیے جا سکیں، اب وزیرِ اعظم نواز شریف کے اس بیان کہ نیب سرکاری افسران کو ہراساں کر رہا ہے اور اہم منصوبوں کی تکمیل میں رکاوٹ ڈال رہا ہے، پر وزیرِ اعظم کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے۔

پیپلز پارٹی بھی وزیرِ اعظم کے اس بیان کی تائید کرتے ہوئے کچھ دیر کے لیے سخت احتسابی مہم کے خلاف اپنی شکایات بھول گئی۔

سیاسی جماعتوں کو اس بات پر آپس میں اتفاق کرنا ہوگا کہ ملک میں احتساب کو مستحکم کیا جانا چاہیے، اور پھر اس مرحلے کو چلنے دیا جائے۔

احتساب کے ایک مکمل طور پر آزاد و خود مختار سیٹ اپ کی ضرورت ہے جس کا سربراہ الیکشن کمیشن کی طرح اتفاقِ رائے سے منتخب ہونا چاہیے۔

اس حوالے سے بھی مضبوط قوانین کی ضرورت ہے کہ انکوائری کی ابتداء سے قبل کیا شرائط ہونی ضروری ہیں۔ سب سے اہم یہ کہ اس بات پر اتفاق ہونا چاہیے کہ ملک میں احتساب کس طرح آگے بڑھے گا، اور یہ کہ اس کی بالادستی کو قبول کرنا چاہیے۔

یہ منظر بالکل بھی خوشگوار نہیں ہوتا کہ جب مخالفین کے خلاف کارروائی ہوتی ہے تو سیاسی جماعتیں نیب کی تائید کرتی ہیں، اور جب نیب ان کے اپنے خلاف کارروائی کرے تو چیخ و پکار مچ جاتی ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ اداریہ ڈان اخبار میں 18 فروری 2016 کو شائع ہوا۔

اداریہ