نقطہ نظر

آئینی پٹیشن میں گالی

رحمان ملک کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف دائر پٹیشن میں ان کے والد کو گالی دی گئی ہے.

یہ سپریم کورٹ بھی عجیب جگہ ہے، اچھے خاصے معقول آدمی بھی قانون کی موٹی موٹی کتابوں، انصاف کی عمارت اونچی فصیلوں اور محرابوں کی سطوت دیکھ کہ سٹپٹا جاتے ہیں۔

صحافی ہوں اور سوال نہ ہوں، واللہ ممکن ہی نہیں، اسی لیے عدالت آنے والا ہر وہ شخص جس سے جوابدہی ضروری ہے، اس کو ہم صحافی گھیر گھار کے روسٹرم تک ضرور لاتے ہیں۔ اسی روسٹرم پر ہم نے مقدمہ جیتنے والے کو بڑھکیں مارتے دیکھا ہے اور ہارنے والے فریق کو بغلیں جھانکتے بھی دیکھا ہے۔

دو روز قبل سابق وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک سے یہیں ملاقات ہوئی، جناب پر پاکستان اسٹیل مل کرپشن کیس کی تفتیشی ٹیم کے سربراہ کو تبدیل کرکے تفتیش پر اثر انداز ہونے کا الزام تھا اور توہین عدالت کا مقدمہ چل رہا تھا۔

الزام میں معافی کی کتنی گنجائش تھی، تھی بھی کہ نہیں، یہ بحث الگ، مگر سابقہ وزیر کو توہینِ عدالت کے مقدمے سے چھٹکارا مل گیا۔ ملک صاحب خوشی میں سرشار عدالت کے احاطے میں بنے میڈیا روسٹرم پر آئے، گذشتہ عدلیہ کو لتاڑا اور نئی عدلیہ پر سبحان اللہ کی۔

ملک صاحب آج پھر تشریف لائے، مقدمہ تھا اراکین اسمبلی کی دوہری شہریت کا، چمکتے کیمروں کے آگے شکوہ کرنے لگے "ایک ہیں محمود اختر نقوی صاحب، دیکھیں میں کتنے احترام سے ان کا نام لے رہا ہوں،، ہم صحافی لوگ متوجہ ہوئے تو ملک صاحب نے سلسلہ پھر جوڑا "ان صاحب نے میرے خلاف درخواست دی اور پٹیشن میں میرے والد کو گالی دی ہے، مجھے فخر ہے کہ میں دیہاتی ہوں۔"

بات اچنبھے کی تھی، ملک صاحب کا شکوہ بجا تھا۔ ساتھی رپورٹر وحید مراد شرارتاً گالی پوچھنے کو تھے مگر بات معیوب تھی، کون پوچھتا؟ ملک صاحب نے یہاں وہاں کی بات کی، چبھتے سوالات کا شکوہ کیا اور چل دیے، مگر ان کے جاتے جاتے میڈیا کو سوال مل گیا "آئینی پٹیشن میں گالی؟؟"

ملک صاحب نہ بتاتے تو شاید میڈیا کو کانوں کان بھی خبر نہ ہوتی مگر ملک صاحب خود ہی خبر دے گئے۔ عدالت کی مرکزی لابی میں داخل ہوئے تو دیکھا وہی درخواست گزار محمود اختر ہاتھوں میں درخواستوں کا پلندہ لیے کھڑے جیسے رحمان ملک صاحب کے جانے کا انتظار کر رہے تھے۔ ہم نے آگے بڑھ کر پوچھا کہ جناب یہ پٹیشن میں گالی کہاں سے دے دی آپ نے؟

جواب سوال سے زیادہ دلچسپ تھا "وکیل اپنے نام کے ساتھ ایڈووکیٹ لکھتے ہیں، بولو لکھتے ہیں کہ نہیں؟" ہم نے تائید میں سر ہلایا، "بس تو میں نے بھی رحمان ملک کے نام کے ساتھ ان کے والد کا نام اور والد کے نام کے ساتھ ان کا کام اور عرفیت لکھ دی، کیا برا کیا؟"

ہم نے کہا نقوی صاحب وہ تو ٹھیک ہے مگر گالی تو نہیں دینی چاہیے۔ جواب ملا "گالی نہیں صرف مکمل نام لکھا تاکہ پٹیشن کی کاپی درست نام پتے پر درست شخص کو مل سکے۔"

سوال تب بھی تشنہ تھے۔

نقوی صاحب نے جھٹ سے پٹیشن کی کاپی آگے کردی۔ لکھا تھا "سینیٹر اے رحمان ملک ولد محمد فیروز عرف چاچا حمام والا سکنہ پنڈ ججا ساہیا والا، ڈسٹرکٹ سیالکوٹ۔"

عفت حسن رضوی

عفت حسن رضوی اسلام آباد کی نجی نیوز ایجنسی کی کاریسپانڈٹ ہیں اور بین الاقوامی نشریاتی اداروں کے ساتھ بطور فری لانس کالم کار وابستہ ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: IffatHasanRizvi@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔