قربانی کا بکرا؟
ورلڈ ٹی 20 اسکواڈ سے ڈراپ ہونے اور اب پاکستانی ٹیم کے رکن وہاب ریاض سے تلخ کلامی کے بعد احمد شہزاد کے لیے چیزیں بدتر ہوتی جا رہی ہیں۔
شہزاد کے گذشتہ دو ماہ آسان نہیں رہے۔ وہ اپنی خراب ساکھ کو بہتر بنا کر خود کو حقیقی طور پاکستان کے بہترین بیٹسمین میں تبدیل کرنے میں ناکام رہے ہیں اور ان کی ڈوبتی فارم کے نتیجے میں وہ حتمی طور پر ٹی 20 اسکواڈ سے ڈراپ کر دیے گئے۔
یہاں تک کہ کپتان شاہد آفریدی سے دوستی بھی 'پاکستانی کوہلی' کو سہارا نہیں دے سکی۔ یہ نام طنزیہ طور پر ان پرستاروں نے رکھا ہے جن کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔
ان کی گذشتہ 5 ٹی 20 میچوں میں کارکردگی انتہائی افسوس ناک رہی ہے اور ان کے بنائے گئے رنز کچھ اس طرح ہیں: 12، 13، 8، 9، 16۔
مگر کیا واقعی شہزاد اتنے بڑے ٹورنامنٹ سے پہلے ٹیم سے ڈراپ کیے جانے کے مستحق ہیں؟
سب سے پہلے شہزاد کے کریئر کو تھوڑا گہرائی سے جاننے کے لیے وقت میں پیچھے چلتے ہیں۔
اپنی 15ویں سالگرہ کے دو مہینے بعد لاہور کے اس نوجوان بیٹسمین نے ڈومیسٹک کرکٹ میں قدم رکھا۔
قائد اعظم ٹرافی (گولڈن لیگ) 2007 میں کراچی ہاربر کے خلاف لاہور شالیمار کے لیے کھیلتے ہوئے انہوں نے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلنے کا آغاز کیا۔ اپنی پہلی اننگز میں تو وہ دو ہندسوں میں داخل نہیں ہو سکے لیکن دوسری اننگز میں انہوں نے دھیمے انداز میں 42 رنز بنا کر سب کو متاثر کیا۔
یہ بلے بازی میں ان کا ہنر ہی تھا جس نے ان کی انڈر 19 ٹیم میں سلیکشن میں مدد دی اور صرف چند مہینوں بعد ہی شہزاد نے انگلینڈ کے خلاف اپنے پہلے یوتھ ٹیسٹ میچ میں 367 رنز کے تعاقب میں 167 رنز اسکور کیے۔
جلد ہی وہ پاکستان انڈر 19 کے باقاعدہ اوپنر بن گئے اور دو یوتھ عالمی کپ میں پاکستان کی نمائندگی کی۔
دو سال بعد 17 سالہ شہزاد نے اپنا پہلا سینئر میچ آسٹریلیا کے خلاف کھیلا۔ شروع میں کچھ مشکلات کے بعد وہ پاکستان ٹیم کے مستقل رکن بن گئے، اور 3 فروری 2011 میں سیڈن پارک میں نیوزی لینڈ کے خلاف ایک روزہ بین الاقوامی میچ میں پہلی سنچری اسکور کی۔
تب سے لے کر وہ پاکستان کے لیے دو ورلڈ کپس میں اوپنر رہے اور 2009 اور 2014 میں ہونے والے ورلڈ ٹی 20 اسکواڈز کا حصہ بھی رہے۔
2009 کے ایڈیشن میں زیادہ مواقع ملنے میں ناکامی اور اگلے دو ایڈیشن میں بھی نظرانداز کیے جانے کے بعد شہزاد نے 2014 کے عالمی ٹی 20 میں اپنی کارکردگی کا اپنا نشان چھوڑا۔ 30 مارچ 2014 کو بنگلادیش کے خلاف شیرِ بنگلہ اسٹیڈیم میں وہ واحد پاکستانی تھے جنہوں نے اس مختصر ترین کرکٹ فارمیٹ میں سنچری اسکور کی۔
تب سے وہ ٹی 20 میچوں میں پاکستان کے سب سے زیادہ رنز بنانے والے کھلاڑی ہیں۔ مارچ 2014 سے لے کر ویسٹ پیک اسٹیڈیم نیوزی لینڈ میں کھیلے گئے پاکستان کے آخری ٹی 20 تک، 24 سالہ کھلاڑی نے 18 اننگز میں 117 کے اسٹرائیک ریٹ کے ساتھ 413 رنز بنائے ہیں۔ عمر اکمل رنز کی اسی تعداد مگر ایک زیادہ اننگز کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں۔