خوشامد کریں ڈاکٹر بنیں
گذشتہ کچھ عرصے سے پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں کافی ترقی ہوئی ہے اور اب پہلے سے بھی زیادہ طلباء ماسٹرز اور پی ایچ ڈی ڈگری پروگرامز میں داخلے لے رہے ہیں۔
مگر ملک میں ریسرچ کلچر اب تک غیر متاثرکن رہا ہے اور تیسرے فریق کی نگرانی کی عدم موجودگی اور معیاری پیشہ ورانہ اساتذہ کی قلت کی وجہ سے یہ مزید تنزلی کا شکار ہے۔ اس سے پاکستانی طالب علموں کی صلاحیتوں پر فرق پڑتا ہے۔
عام طور پر ریسرچ کی تربیت تب شروع ہوتی ہے جب کوئی طالب علم ایم فل یا ایم ایس کر رہا ہوتا ہے۔ کورس ورک کے علاوہ پاکستانی ادارے طالب علموں کو ریسرچ کرنے کا طریقہ سیکھنے اور مقالہ لکھنے میں کوئی مدد فراہم نہیں کرتے۔
طالب علم میں تنقیدی سوچ اور لکھنے کے ہنر کی عدم موجودگی سے مسئلہ مزید پیچیدہ ہوجاتا ہے۔
'شارٹ کٹ' لینا
پی ایچ ڈی ڈگری حاصل کرنا اتنا آسان نہیں ہے جتنا لگتا ہے۔ اکثر طالب علم مقالہ لکھنے کے لیے کسی پروفیشنل شخص کی خدمات حاصل کرتے ہیں اور انہیں کثیر رقم کی ادائیگی کرتے ہیں۔ وہ اس کے دیر پا فوائد، یعنی ایک ڈگری اور ایک زبردست ترقی کے لیے زیادہ پیسے دینے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔
ڈاکٹر منصور*، جو کہ ایک پی ایچ ڈی اور استاد ہیں، انہوں نے اپنی صورتحال اس طرح بیان کی؛
پی ایچ ڈی میں ہر قسم کے طالب علم کو شدید محنت کرنی پڑتی ہے۔ اور وہجنہیں ریسرچ کی سمجھ نہیں ہوتی، وہ ادھر ادھر لڑھکتے رہتے ہیں۔ میں ذاتیطور پر ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جنہوں نے 2 سے 4 لاکھ روپے دے کر اپنیریسرچ کا کام کروایا ہے۔ قابل طالب علم بھی جدوجہد کرتے ہیں لیکن ان کاطریقہ مختلف ہوتا ہے۔
ڈگری چاہیے؟ خوشامد کریں
اس وقت سپروائیزر اور سپروائیزی (طالبعلم) کے درمیان تعلقات کا باضابطہ معائنہ نہیں کیا جاتا۔ جس وجہ سے سپروائیزر زیادہ بااختیار بن جاتا ہے جو کسی کے آگے جوابدہ نہیں ہوتا۔
پی ایچ ڈی کے ایک اور طالب علم، نعیم* نے مجھے بتایا؛
میرے سپروائیزر مجھے نظر انداز کرتے تھے لیکن میرا ساتھی جو ان کی خوشامدکرتا اور تحفے دیا کرتا تھا، اس کے لیے ان کے پاس ہمیشہ وقت ہوتا تھا۔مجھے اپنی قابلیت پر یقین ہے اور میں ان کی جی حضوری نہیں کرنا چاہتاتھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میرا ساتھی ڈگری مکمل کرچکا ہے جب کہ میریڈگری 8 سال بعد بھی نامکمل ہے۔
اور زبردستی کے احسانات بھی
پی ایچ ڈی ڈگری کو مقررہ وقت میں مکمل کرنا بھی فکرمندی کی بات ہے کیونکہ یہاں کے نظام میں باقاعدہ ٹائم ٹیبل پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا۔ بلکہ جن ملکوں میں ٹائم ٹیبل پر عمل کیا جاتا ہے ان کے مقابلے میں پاکستان میں دگنا وقت لگتا ہے۔ تھیسز کا حتمی مسودہ صرف اسی صورت میں جمع کروایا جاتا ہے جب سپروائیزر طالب علم سے ‘مطمئن’ ہو ورنہ اسے انتظار کرنا پڑتا ہے۔
تابش* جنہوں نے حال ہی میں اپنا مقالہ مکمل کیا ہے، نے مجھے بتایا کہ؛
میرے سپروائیزر نے مجھ پر دباؤ ڈالا کہ میں ان کے بچوں کو ٹیوشن دوں؛ انکے زیرِ تعمیر گھر کی نگرانی کروں، اور بہت کچھ۔ انہوں نے نہایت ڈھٹائیسے واضح کیا کہ اگر میں نے ان پر یہ ”احسانات” نہ کیے تو وہ میرا تھیسز منظور نہیں کریں گے۔ تو میں نے وہی کیا جو کچھ وہ چاہتے تھے۔ آج میرے پاسمیری ڈگری ہے۔
تعلیمی اداروں میں اساتذہ کا طالب علموں سے اپنے لیے ریسرچ پیپر شائع کروانا بھی ایک عام عمل ہے۔ اساتذہ کو ترقی کے لیے ایک تعداد میں ریسرچ پیپرز شائع کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور انہیں وہ تعداد اکثر طالب علموں کی “زبردستی“ مدد سے حاصل ہوتی ہے۔
ڈاکٹر *مسعود جو اس استحصال کے شکار ہیں بتاتے ہیں کہ؛
ایک دن میرے سپروائیزر نے مجھے بلایا اور میرے ریسرچ پیپرز کے بارے میںپوچھا۔ میں نے بتایا کہ میں ان پر کام کر رہا ہوں۔ انہوں نے مجھے ان تمامپیپرز میں اپنا نام شامل کرنے اور ان کی اشاعتی فیس بھرنے کی ہدایت کی،جسے میں نے تسلیم کر لیا۔ میں جب آفس سے باہر جانے لگا تو انہوں نے کہاکہ “یہ مت بھولنا کہ کل تمہارا آخری پی ایچ ڈی سیمینار ہے۔ اور میں ہی وہان چارج ہوں جو تمہاری ڈگری کو مکمل کرواسکتا ہے“۔ ان کا پیغام بہت واضحتھا۔
خواتین کو تو اور بھی بھاری قیمت چکانی ہوتی ہے – یعنی جنسی احسانات۔ سرکاری اداروں میں تو صورتحال اور بھی ہولناک ہے۔
پی ایچ ڈی کی طالبہ *ثمرین نے مجھے بتایا کہ
پی ایچ ڈی میں داخلے کے بعد جلد ہی میرے سپروائیزر نے مجھے اپنے ساتھباہر ڈنر پر چلنے کے لیے کہنا شروع کردیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر میں وہ سبکروں جو وہ چاہتے ہیں، تو میرے سارے سیمینار کامیاب ہوسکتے ہیں۔ میں نےان سے اپنے رشتے کو پروفیشنل رکھنے کی بھرپور کوشش کی مگر ان کی پیش قدمیکو روکنے میں ناکام رہی۔ آخرکار مجھے پی ایچ ڈی کو چھوڑنا پڑا۔ میرے پاساس کے علاوہ کوئی راستہ بھی نہیں تھا۔
2014 میں لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز (لمس) میں ایک کیس رپورٹ ہوا جس میں شعبہ قانون کے ایک سابق استاد پر ایک طالبہ کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگایا گیا۔ طالبہ کے وفاقی محتسب میں شکایت درج کروانے کے فوراً بعد اس استاد کو فارغ کر دیا گیا۔
پی ایچ ڈی کرنا ایک طویل اور محنت طلب عمل ہے جس میں اکثر طالب علم گھبراہٹ اور ڈپریشن کا بھی سامنا کرتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں ایک سازگار تعلیمی ماحول اور اداروں کی فراہم کردہ مدد کسی بھی طالب علم کو یہ عمل اگر خوشی کے ساتھ نہیں، تو کم از کم کامیابی کے ساتھ پورا کرنے میں اہم ثابت ہوتی ہے۔
اوپر بتائے گئے پی ایچ ڈی طالبعلموں کے واقعات ہمارے نظام میں موجود اخلاقی کرپشن کو واضح کرتے ہیں۔ نتیجتاً ہمارے طالب علم لائبریریاں کھنگالنے، حوالہ جات دینے، وسائل تلاش کرنے اور مقالے لکھنے کے شعبے میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ ایسے طالب علم اکثر تدریس کے شعبے میں جاتے ہیں، اور اپنے طالبعلموں کے ساتھ بھی وہی کچھ کرتے ہیں جو وہ خود جھیل چکے ہوتے ہیں۔
شفافیت کیسے ممکن؟
موجودہ صورتحال میں ایک مکمل جائزے اور پہلے سے بہتر قوانین کے اطلاق کی ضرورت ہے؛ ایک غیر جانبدار ادارے کو پاکستان میں ریسرچ ڈگریوں میں ہونے والی پیشرفت کا جائزہ لینا چاہیے۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو پی ایچ ڈی کے طالب علموں کے ساتھ براہِ راست رابطے میں رہنا چاہیے اور تھیسز ایڈوائیزری کمیٹی قائم کرنی چاہیے جو سپروائیزر اور طالبعلم سے سال میں دو بار ملاقات کرے تاکہ ریسرچ کے جاری کام کا معائنہ اور کسی بھی درپیش مسئلے کو دور کیا جا سکے۔
اس سلسلے میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تکمیل کا ٹائم ٹیبل بھی مددگار ثابت ہوگا جس سے سپروائیزر اور طالب علم، دونوں ہی حتمی وقت کا تعین کر سکیں گے۔ ادارے اور ایچ ای سی کو ٹائیم ٹیبل کا ریکارڈ اپنے پاس رکھنا چاہیے، اور قریبی جائزہ لینا چاہیے کہ آیا طالب علم اپنے اہداف کو حاصل کر رہا ہے یا نہیں۔
آخری مگر اہم بات یہ کہ طالب علم خود کو زبان اور تحقیقی ہنر سے آراستہ کریں۔ کسی بھی قسم کی بد انتظامی کی صورت میں وفاقی محتسب سے مدد لیں اور شکایت درج کروائیں۔
ایسا کرنے سے طالب علم نہ صرف خود کو ذلت اور استحصال سے بچا پائیں گے بلکہ استحصال کرنے والوں کا سامنا بھی کر سکیں گے۔
(*نام تبدیل کر دیے گئے ہیں۔)
نادیہ آغا تدریس سے وابستہ ہیں، اور یونیورسٹی آف یارک، انگلینڈ سے وومین اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھتی ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ Aghanadia@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔