بیگم پاشا ہارون اور قائد اعظم کی پاکستان وومن نیشنل گارڈز کی دیگر اراکین کے ہمراہ تصویر "ہم لوگ مسلم لیگ کیلئے کام کر رہے تھے، ان کیلئے نعرے لکھنا وغیرہ وغیرہ۔ تقسیم کے بعد ہم نے فوج میں شمولیت اختیار کر لی اور بریگیڈئیر یحی خان کی بریگیڈ سے جڑ گئے۔ ہم مختلف طریقوں سے فوج کی مدد کر رہے تھے،۔ ہم ایمبولینس ، سماجی کام اور جو کچھ ہمیں ذمہ داری سونپی جاتی وہ ادا کرتے۔ہمیں فوجی تربیت بھی ملی اور فائرنگ کرنا بھی سکھایا گیا تاکہ بوقت ضرورت ہم فائرنگ کر سکیں۔
یحیی خان ہمارے بریگیڈیئر اور ہم ان کی بریگیڈ کا حصہ تھے۔
بیگم رانا لیاقت صاحبہ ہماری لیڈر تھیں۔ انہوں نے پاکستان کے دورے پر آئے شاہِ ایران تو بیگم صاحبہ کی موجودگی میں نیشنل گارڈز نے انہیں سیلوٹ پیش کرنا تھا۔
جب بیگم صاحبہ کی گاڑی پہنچی تو کوئی چھوٹا سے مسئلہ آ گیا اور پروٹوکول کے مطابق، یحی خان گاڑی کا درواز کھولنے میں دو، تین تاخیر سے پہنچے۔اس پر بیگم صاحبہ بہت ناراض ہوئیں۔
بہر حال رات بارہ بجے کے قریب نیشنل گارڈز کے ایجوٹینٹ کیپٹن محفوظ ہمارے ہاؤس آئے۔ چوکیدار نے اندر آ کر مجھے بتایا کہ بی بی آپ کے کیپٹن محفوظ آئے ہیں، کیونکہ چوکیدار انہیں نہیں جانتا تھا۔
میں نے پوچھا کہ کیپٹن محفوظ کیوں آئے ہیں تو چوکیدار نے بتایا کہ وہ کہہ رہے ہیں ضروری کام ہے بی بی سے ملناہے۔میں فوراً باہر گئی، اس موقع پر یوسف بھی میرے ساتھ تھے۔ میرے پوچھنے پر کیپٹن نے کہا آپ کو کچھ کرنا ہو گا۔آپ کے شوہرفوج کے سربراہ جنرل ڈگلس گریسی کو جانتے ہیں۔ آپ پلیز ان کے پاس جائیں اور یحی خان کو بچائیں کیونکہ انہیں نوکری سے نکالا یا پھر انہیں کہیں اور تعینات کیا سکتا ہے۔ آپ کو ان کی مدد کرنی چاہیئے۔
میں اور یوسف ہارون فورا گئے۔ جنرل گریسی نے گارڈز کو کہہ رکھا تھا ہم ان کے خاص دوست ہیں اور ہم جب ملنا چاہیئں ہمیں روکا نہ جائے۔
ہم ان سے ملے اور صورتحال سے آگاہ کیا تو انہوں نے فوراً ہی یحیٰ خان کو یہاں سے کوئٹہ تعینات کرنے کیلئے ایک طیارے کا انتظام کرایا تاکہ وہ منظر نامے سے دور چلے جائیں۔
جب جنرل ایوب خان نے اسکندر مرزا سے استعفیٰ لیا اور انہیں جلاوطن کرکے لندن بھیج دیا تو یوسف ہارون اور بیگم ہارون پاشا لندن میں ہی تھے۔ اس حوالے سے بیگم ہارون پاشا نے بتایا کہ:
"اسکندر مرزا کے ایک بہت اچھے انگریز دوست کیپٹن فرینڈ تھے، جو ان کے ساتھ پرانے وقتوں سے فوج میں تھے۔
ہم لندن میں تھے تو انہوں نے ہمیں فون کیا اور بتایا کہ ناہید اور اسکندر مرزا ٓئے رہے ہیں اور میں لینے ایئرپورٹ جا رہا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ آپ اور پاشا کو دیکھ کر بہت خوش ہوں گے، کیونکہ آپ کے آنے سے انہیں تنہائی محسوس نہیں ہو گی۔میں نے ان کیلئے ایک ہوٹل میں بکنگ کرا دی ہے ۔
اسکندر کے پاس اتنا پیسہ نہیں تھا کیونکہ وہ چور نہیں تھے۔ہم نے انہیں جواب دیا کہ ہم ضرور ایئرپورٹ آئیں گے ۔ جب ہم ایئرپورٹ پہنچے تو دیکھا کہ ناہید کانپ رہی ہیں۔ مجھے لگا کہ انہیں ٹھنڈ لگ رہی ہے ، لہذا میں نے اپنا کوٹ اتار کر انہیں دینا چاہا تو انہوں نے منع کرتے ہوئے کر دیا اور کہا کہ انہیں ٹھنڈ نہیں لگ رہی ۔
اس پر اسکندر نے کہا انہیں ٹھنڈ نہیں لگ رہی دراصل جب ہمیں بذریعہ طیارہ کوئٹہ لے جایا جا رہا تھا تو کئی لوگوں نے چاروں طرف سے ہم پر بندوقیں تاننی ہوئی تھیں، جس کی وجہ سے ناہید پر لرزہ طاری ہو گیا۔ میں نے ان سے کہا کہ بیگم صاحبہ پر سے بندوقیں ہٹا کر صرف مجھ پر تانو۔اس پر انہوں نے بیگم صاحبہ کو وہاں سے ہٹا دیا لیکن مجھ پر بدستور بندوقیں تانی رکھیں۔
اسکندر نے بتایا کہ اس دن کے بعد سے ناہید پر لرزہ طاری ہو گیا ہے اور ان کی حالت بہت خراب ہے۔
اسکندر مرزا کے انتقال کے بعد بیگم صاحبہ ان کی تدفین پاکستان میں کرنا چاہتی تھیں لیکن جنرل ایوب نے انہیں اجازت نہیں دی۔
بالآخر،اردشیر زہدی جو کہ شاہ ایران کے وزیرخارجہ اس وقت لندن میں سفیر تھے نے شاہ سے درخواست کی اور انہوں نے طیارہ بھیجا جس کے ذریعے اسکندر مرزا کی لاش کو تہران میں منتقل کیا گیا جہاں ان کی تدفین کی گئی۔
ذوالفقار علی بھٹو اور نصرت بھٹو کی ملاقات
نصرت سابنچی کا شمار بھی ایسے ہی افراد میں ہوتا ہے جو بیگم ہارون پاشا کے قریب رہے اور بعد ازاں انہوں پاکستان کی سیاسی تاریخ میں نمایاں مقام حاصل کیا۔
'بھٹو خاندان کو میری ساس اچھی طرح جانتی تھیں۔ان کی بیوی نصرت کو میں بہت پہلے سے جانتی تھیں کیونکہ ان کے والد ایرانی تھےجنھیں صابنچی کہہ کر پکارا جاتا تھا۔ ایرانی میں صابنچی کا مطلب صابن والا ہے۔ وہ بومبے میں تھے اورتقسیم کے بعد کراچی آنا چاہتے تھے۔اس پر میرے والد نے میری ساس کو خط لکھا اور بتایا کہ وہ ان صاحب کو اچھی طرح جانتے ہیں اگر ممکن ہو سکے تو انہیں اپنے یہاں کچھ دن قیام کرنے دیں جب تک وہ اپنا ٹھکانا نہیں ڈھونڈ لیتے۔میری ساس نے کہا کوئی مسئلہ نہیں وہ کسی بھی وقت آنا چاہیں تو آ سکتے ہیں۔ وہ یہاں آئے تو میری ساس نے انہیں گھر میں موجود گیسٹ ہاؤس میں ٹھرایا۔
پرانے وقتوں میں میرے سسر کے بہت سے دوست سعودی عرب میں رہتے تھے، یہاں چونکہ ہوٹلوں کی قلت تھی تو میرے سسر اپنے دوستوں کو گیسٹ ہاؤس میں ٹھراتے۔ میرے سسر کے انتقال کے بعد وہ گیسٹ ہاؤس خالی تھا، لہذا میری ساس نے انہیں وہاں ٹھرےا دیا۔
کچھ دنوں بعد میری ساس نے 'صابنچی' سے پوچھا کہ کیا ان کی فیملی نہیں ہے؟اس پر انہوں نے بتایا کہ میری دوسرے بیوی ہے، میرا ایک بیٹا اور د و غیر شادی شدہ بیٹیاں نصرت اور بھجت ہیں۔ میری ساس نے انہیں کہا کہ جاؤ اپنی بیوی بچوں کو لے کر آؤ میں تمھیں یہ گھر کا ایک حصہ دے دوں گی، جب تک تم کوئی کام شروع نہیں کرتے اور اپنا گھر نہیں لے لیتے۔ صابنچی نے بتایا کہ گھر خریدنے کیلئے ان کے پاس پیسے نہیں اور وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ کون سا کام شروع کریں کیونکہ پہلے میں صابن کا کاروبار کرتا تھا۔
اس پر میری ساس نے انہیں کہا کہ آپ ایران جائیں اور وہاں سے قالین خرید کر یہاں لائیں، میں انہیں خریدوں گی اور دوستوں سے بھی کہوں گی کہ وہ انہیں خریدیں۔ صانبچی نے ایسا ہی کیا، وہ اپنی بیوی بچوں کو بھی لے آئے اور اس طرح نصرت کی بھٹو سے ملاقات ہوئی، کیونکہ وہ ان کی اپنے ہم عمروں سعید ہارون، سلطان کرم علی بلخ شیر مزاری وغیرہ سے دوستی ہو گئی تھی۔ یہ سب دوست پیلس ہوٹل کے نائٹ کلب جاتے۔ یہ بہت اعلی رتبے کا کلب تھا جس میں داخلے کیلئے ممبر شپ ضروری تھی۔ان دنوں ماسوائے انگلش ، اینگلو انڈین یا پارسی لڑکیوں کے پاکستانی لڑکیاں غیر مردوں کے ساتھ کھلے عام باہرنہیں جاتی تھیں۔
لیکن سعید اور میرا بھائی مصطفی نصرت اور بیجت کے ساتھ کلب جاتے، بھٹو انگلینڈ سے اپنی تعلیم مکمل کر کے واپس آئے تھے۔ وہ سعید اور بلخ شیر وغیرہ کو جانتے تھے، اور اس طرح ایک شام کلب میں بھٹو کی نصرت سے ملاقات ہوئی اور انہیں نصرت سے پیار ہو گیا۔
بھٹو کی والدہ نہیں چاہتی تھیں کہ بھٹو کی نصرت سے شادی ہو۔ اس پر میری ساس بہت ناراض ہوئیں اور پوچھا کہ ایسا کیوں نہیں ہو سکتا کیونکہ نصرت ایک اچھی لڑکی ہے اور اس کاخاندان بھی اچھا ہے۔
یہی سچ ہے میں بڑھا چڑھا کر کچھ نہیں بتا رہی ۔ لوگوں کو اپنے رہنماؤں کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے۔