پاکستان

بیگم پاشا ہارون: تاریخ سے ملاقات

بیگم ہارون کی قائد اعظم، اسکندر مرزا، بھٹو اور ضیا الحق کے متعلق دلچسپ گفتگو.
اس تصویر میں بانی پاکستان قائد اعظم محدعلی جناح کو محترمہ فاطمہ جناح اور بیگم پاشا ہارون کے ساتھ سر عبداللہ ہارون کی رہائشگاہ سی فیلڈ میں دیکھا جا سکتا ہے

کسی بھی ملک یا قوم کو بنتے وقت پیش آنے والے واقعات کو اپنی آنکھ سے دیکھنا اور اس کے تاریخ سازوں کے قریب رہنا ایک عام بات نہیں ہے ۔

بیگم پاشا ہارون کا شمار پاکستان کی ایسی شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے نہ صرف اس ملک کو بنتے دیکھا بلکہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح سمیت تحریک آزادی کے کلیدی کرداروں کے قریب رہنے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔

بیگم پاشا ہارون ،اسمائیلی کمیونٹی کے 48 ویں امام آغا خان سوئم سلطان محمد شاہ کی بھتیجی ہیں اور ان کی شادی تحریک پاکستان کے اہم رہنما حاجی عبداللہ ہارون کے بیٹے یوسف ہارون سے 1937 میں ہوئی۔

تقسیم ہند سے قبل کراچی میں حاجی عبداللہ ہارون کی رہائشگاہ 'سی فیلڈ ' سیاست کا مرکز تھی اور یہی وہ مقام تھا جہاں بیگم ہارون پاشا نے شادی کے بعد اپنی زندگی گزاری۔

تحریک پاکستان میں متحرک کردار کی وجہ سے بیگم پاشا ہارون کو کئی اہم رہنماؤں ، محمد علی جناح، فاطمہ جناح، لیاقت علی خان، بیگم راعنا لیاقت علی،ایوب خان، اسکندر مرزا،ذوالفقار علی بھٹو،نصرت بھٹو کو انتہائی قریب سے جاننے کا موقع ملا۔ ان میں سے کچھ رہنما نہ صرف ان کی رہائشگاہ 'سی فیلڈ' کا دورہ کرتے تھے بلکہ وقتاً فوقتاً وہاں قیام بھی کرتے رہے۔

بیگم پاشا ہارون 'بومبے' (موجودہ ممبئی) اور پونا (پونے) میں پلی بڑھیں ۔ ان کے بچپن کا بیشتر حصہ آغاخان سوئم کی والدہ اور اپنی ماں وجیہہ بی بی کی چچی لیڈی علی شاہ کے گھر میں گزرا ۔

بیگم پاشا ہارون کے شوہر یوسف ہارون ہندوستان میں آغا خان (سوئم) کے سوشل سیکریٹری تھے ۔ جب بیگم پاشا 13 برس کی تھیں تو ایک دن بیگم نصرت عبداللہ ہارون نے انہیں بتایا کہ ان کی منگنی یوسف ہارون سے ہو گی اور جب وہ 14 برس ہوئیں تو ایک ماہ بعد آغا خان نے ہی دونوں کا نکاح پڑھایا جس کے فوری بعد وہ کراچی کے 'سی فیلڈ' میں منتقل ہو گئیں۔

قائد اعظم کے لیے کو گنگنا کر خراج عقیدت پیش کیا

بیگم پاشا ہارون کا کہنا ہے کہ گھر کی سب سے بڑی اولاد ہونے کی وجہ سے نہ صرف اپنے خاندان میں سب کی لاڈلی تھیں بلکہ شادی کے بعد سسرال میں بھی سب کی چہیتی تھیں۔

میرے سسر عبداللہ ہارون مجھے بہت چاہتے تھے۔ وہ جب تک صبح مجھے نہیں دیکھتے تھے، دفتر نہیں جاتے تھے، اور شام کو واپس آنے پر بھی سب سے پہلے میرا ہی پوچھا کرتے تھے۔ وہ مجھ سے بہت پیار کرتے تھے۔

91 سالہ بیگم پاشا ہارون نے حال ہی میں ڈان نیوز کو ایک خصوصی انٹرویو میں تاریخ پاکستان کے حوالے سےگفتگو کی ۔ اس انٹرویو میں انہوں نے تحریک آزادی اور قیام پاکستان کے وقت پیش آنے والے حالات واقعات پر تفصیلی گفتگو کی۔

بیگم پاشا ہارون سے کی گئی گفتگو انہی کی زبانی پڑھیے:

'قائد اعظم بطور مہمان'

بیگم پاشا ہارون نے انٹرویو کے دوران بتایا کہ قائد اعظم جب بھی کراچی آتے، تو عبداللہ ہارون کے گھر میں قیام کرتے۔ ایک کمرے میں قائدِ اعظم رہتے، دوسرے میں فاطمہ جناح، اور رات کا کھانا ہم سب ساتھ میں کھایا کرتے تھے۔

'قائدِ اعظم میرے سسر کے انتقال کے بعد بھی ہمارے پاس آتے رہے تھے۔ جب تیسری دفعہ وہ ہمارے پاس آئے تو ریفرینڈم کا زمانہ تھا۔ میں اس وقت ووٹنگ کی عمر تک نہیں پہنچی تھی، لیکن میں نے پھر بھی 12 سے 14 ووٹ مسلم لیگ کے حق میں ڈالے تھے۔ شام کو ہم قائد اعظم کے ساتھ بیٹھے تھے، تو ان کے استفسار پر میں نے بتایا کہ میں نے اتنے ووٹ ڈالے ہیں۔ میری بھابھی زینت نے بتایا کہ انہوں نے بھی مسلم لیگ کے حق میں 6 ووٹ ڈالے ہیں۔ ہم سمجھے تھے کہ قائداعظم اس بات پر خوش ہوں گے اور ہمیں شاباشی دیں گے۔ مگر وہ انتہائی غصے میں آ گئے اور کہنے لگے کہ مجھے دھوکے بازی سے پاکستان نہیں چاہیے۔ '

بائیں سے دائیں جانب جانب: محترم یوسف ہارون، بیگم نصرت ہارون، محترمہ فاطمہ جناح اور بیگم ہارون پاشا

ملک کے موجودہ حالات کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ' مجھے لگتا ہے کہ وہ ملک کی موجودہ حالت دیکھ کر اپنی قبر میں تڑپتے ہوں گے۔ اگر وہ آج زندہ ہوتے، تو پاکستان کبھی بھی ایسا نہیں ہوتا۔ '

جب پاکستان بن رہا تھا تو بوڑھے لوگ پیچھے تھے، اور ہم جدوجہد جاری رکھنے کے لیے ہم نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے۔ میرا خیال ہے کہ اب ایک بار پھر پروفیشنل نوجوانوں کو سڑکوں پر آنا چاہیے اور ملک کی بہتری کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے۔ ہمیں ایسا پاکستان چاہیے، جیسا اسے ہونا چاہیے تھا۔ ایک دن ایسا ضرور ہوگا، پھر بھلے ہی میں یہاں موجود نہیں ہوں، لیکن مجھے اس کی پوری امید ہے کہ ایسا دن ضرور آئے گا۔

سر عبداللہ ہارون کی رہائشگاہ 'سی فیلڈ' میں موجود کھانے کی میز جہاں پاکستان کے جھنڈے کا انتخاب کیا گیا

ایک دن قائدِ اعظم کھانے پر ہمارے گھر تشریف لائے، اور کہا کہ وہ پاکستان کا پرچم دیکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے میز پر پرچم رکھا، اور کہا کہ اس کا سفید حصہ کافی چھوٹا ہے، اور اسے وسیع کر دیا جائے، کیونکہ یہ اقلیتوں کی نمائندگی کرتا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں ہر مذہبی اقلیت کو تمام حقوق حاصل ہوں۔ چنانچہ ان کی خواہش پر ایسا ہی کیا گیا۔

25 دسمبر 1947 کو سر غلام حسین ہدایت اللہ کے گھر پر قائدِ اعظم کی سالگرہ کے لیے کھانے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ وہاں چند ہی لوگ موجود تھے۔ میں نے ان کی سالگرہ پر ان کے لیے گانا گایا تھا۔ وہ گانا سنتے ہوئے شرما رہے تھے۔

وہ ان کی آخری سالگرہ تھی۔ ہمیں معلوم نہیں تھا کہ وہ ٹی بی کے مریض ہیں۔ انہوں نے اور فاطمہ جناح نے ان کی بیماری کے بارے میں کسی کو نہیں بتایا تھا۔ وہ اندر سے شدید بیماری کے باوجود باہر سے انتہائی مضبوط اور نفیس نظر آتے تھے۔

قائدِ اعظم بولنے سے زیادہ سننے پر یقین رکھتے تھے۔ چاہے ہم ان کو ان کے بارے میں کہی اچھی باتیں بتاتے یا بری، وہ کبھی ناراض یا غصہ نہیں ہوتے تھے۔ وہ بہت پرسکون اور ٹھنڈے مزاج کے حامل تھے۔

ہم لوگ ایک دن ہاکس بے پر پکنک گئے تھے۔ واپسی پر انہوں نے کہا کہ آج میں بتاؤں گا کہ میں کہاں پیدا ہوا تھا۔ پھر انہوں نے ڈرائیور سے کہا کہ کھارادر میں امام باڑے کے سامنے لے چلے۔ وہاں پہنچنے کے بعد انہوں نے ایک دو گلیوں کے بعد ایک عمارت دکھائی، جس کا نام وزیر مینشن تھا۔ انہوں نے کہا کہ وہ یہاں پیدا ہوئے تھے۔

ایک دن کھانے کی میز پر کسی نے مجھ سے کہا کہ قائدِ اعظم جھرک میں پیدا ہوئے تھے، تو میں نے ان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ وہ کراچی میں پیدا ہوئے تھے۔ اس شخص نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کیسے جانتی ہیں، تو میں نے ان سے کہا کہ قائدِ اعظم نے مجھے خود بتایا تھا کہ وہ کھارادر میں پیدا ہوئے ہیں۔

قائد اعظم کا انتقال

جب مجھے قائداعظم کی وفات کی خبر ملی تو میں لندن میں تھی۔ میرے شوہر یہاں موجود تھے۔ مس فاطمہ جناح نے میری ساس کو فون کیا اور انہیں یہ خبر سنائی۔ میری ساس نے میرے خاوند کو کہا کہ قائدِ اعظم کے غسل کا انتظام کریں۔ میرے خاوند اور ہاشم رضا نے کھارادر سے غسال کو بلا کر ان کے غسل اور تجہیز و تکفین کا انتظام کیا۔ قائدِ اعظم کی صاحبزادی بھی ان کے انتقال پر آئی تھیں، اور ایک دن ٹھہر کر واپس چلی گئی تھیں۔

بریگیڈئیر یحیٰ خان کی بریگیڈ کا حصہ

بیگم راعنا لیاقت پاکستان وومن نیشنل گارڈ کی سربراہ تھیں اور اس میں بیگم ہارون پاشا ایک افسر تھیں۔ پاکستان وومن نیشنل گارڈ بریگیڈئیر یحیٰی خان کی بریگیڈ کے ماتحت تھی ۔

بیگم پاشا ہارون اور قائد اعظم کی پاکستان وومن نیشنل گارڈز کی دیگر اراکین کے ہمراہ تصویر

"ہم لوگ مسلم لیگ کیلئے کام کر رہے تھے، ان کیلئے نعرے لکھنا وغیرہ وغیرہ۔ تقسیم کے بعد ہم نے فوج میں شمولیت اختیار کر لی اور بریگیڈئیر یحی خان کی بریگیڈ سے جڑ گئے۔ ہم مختلف طریقوں سے فوج کی مدد کر رہے تھے،۔ ہم ایمبولینس ، سماجی کام اور جو کچھ ہمیں ذمہ داری سونپی جاتی وہ ادا کرتے۔ہمیں فوجی تربیت بھی ملی اور فائرنگ کرنا بھی سکھایا گیا تاکہ بوقت ضرورت ہم فائرنگ کر سکیں۔

یحیی خان ہمارے بریگیڈیئر اور ہم ان کی بریگیڈ کا حصہ تھے۔

بیگم رانا لیاقت صاحبہ ہماری لیڈر تھیں۔ انہوں نے پاکستان کے دورے پر آئے شاہِ ایران تو بیگم صاحبہ کی موجودگی میں نیشنل گارڈز نے انہیں سیلوٹ پیش کرنا تھا۔

جب بیگم صاحبہ کی گاڑی پہنچی تو کوئی چھوٹا سے مسئلہ آ گیا اور پروٹوکول کے مطابق، یحی خان گاڑی کا درواز کھولنے میں دو، تین تاخیر سے پہنچے۔اس پر بیگم صاحبہ بہت ناراض ہوئیں۔

بہر حال رات بارہ بجے کے قریب نیشنل گارڈز کے ایجوٹینٹ کیپٹن محفوظ ہمارے ہاؤس آئے۔ چوکیدار نے اندر آ کر مجھے بتایا کہ بی بی آپ کے کیپٹن محفوظ آئے ہیں، کیونکہ چوکیدار انہیں نہیں جانتا تھا۔

میں نے پوچھا کہ کیپٹن محفوظ کیوں آئے ہیں تو چوکیدار نے بتایا کہ وہ کہہ رہے ہیں ضروری کام ہے بی بی سے ملناہے۔میں فوراً باہر گئی، اس موقع پر یوسف بھی میرے ساتھ تھے۔ میرے پوچھنے پر کیپٹن نے کہا آپ کو کچھ کرنا ہو گا۔آپ کے شوہرفوج کے سربراہ جنرل ڈگلس گریسی کو جانتے ہیں۔ آپ پلیز ان کے پاس جائیں اور یحی خان کو بچائیں کیونکہ انہیں نوکری سے نکالا یا پھر انہیں کہیں اور تعینات کیا سکتا ہے۔ آپ کو ان کی مدد کرنی چاہیئے۔

میں اور یوسف ہارون فورا گئے۔ جنرل گریسی نے گارڈز کو کہہ رکھا تھا ہم ان کے خاص دوست ہیں اور ہم جب ملنا چاہیئں ہمیں روکا نہ جائے۔

ہم ان سے ملے اور صورتحال سے آگاہ کیا تو انہوں نے فوراً ہی یحیٰ خان کو یہاں سے کوئٹہ تعینات کرنے کیلئے ایک طیارے کا انتظام کرایا تاکہ وہ منظر نامے سے دور چلے جائیں۔

جب جنرل ایوب خان نے اسکندر مرزا سے استعفیٰ لیا اور انہیں جلاوطن کرکے لندن بھیج دیا تو یوسف ہارون اور بیگم ہارون پاشا لندن میں ہی تھے۔ اس حوالے سے بیگم ہارون پاشا نے بتایا کہ:

"اسکندر مرزا کے ایک بہت اچھے انگریز دوست کیپٹن فرینڈ تھے، جو ان کے ساتھ پرانے وقتوں سے فوج میں تھے۔

ہم لندن میں تھے تو انہوں نے ہمیں فون کیا اور بتایا کہ ناہید اور اسکندر مرزا ٓئے رہے ہیں اور میں لینے ایئرپورٹ جا رہا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ آپ اور پاشا کو دیکھ کر بہت خوش ہوں گے، کیونکہ آپ کے آنے سے انہیں تنہائی محسوس نہیں ہو گی۔میں نے ان کیلئے ایک ہوٹل میں بکنگ کرا دی ہے ۔

اسکندر کے پاس اتنا پیسہ نہیں تھا کیونکہ وہ چور نہیں تھے۔ہم نے انہیں جواب دیا کہ ہم ضرور ایئرپورٹ آئیں گے ۔ جب ہم ایئرپورٹ پہنچے تو دیکھا کہ ناہید کانپ رہی ہیں۔ مجھے لگا کہ انہیں ٹھنڈ لگ رہی ہے ، لہذا میں نے اپنا کوٹ اتار کر انہیں دینا چاہا تو انہوں نے منع کرتے ہوئے کر دیا اور کہا کہ انہیں ٹھنڈ نہیں لگ رہی ۔

اس پر اسکندر نے کہا انہیں ٹھنڈ نہیں لگ رہی دراصل جب ہمیں بذریعہ طیارہ کوئٹہ لے جایا جا رہا تھا تو کئی لوگوں نے چاروں طرف سے ہم پر بندوقیں تاننی ہوئی تھیں، جس کی وجہ سے ناہید پر لرزہ طاری ہو گیا۔ میں نے ان سے کہا کہ بیگم صاحبہ پر سے بندوقیں ہٹا کر صرف مجھ پر تانو۔اس پر انہوں نے بیگم صاحبہ کو وہاں سے ہٹا دیا لیکن مجھ پر بدستور بندوقیں تانی رکھیں۔

اسکندر نے بتایا کہ اس دن کے بعد سے ناہید پر لرزہ طاری ہو گیا ہے اور ان کی حالت بہت خراب ہے۔

اسکندر مرزا کے انتقال کے بعد بیگم صاحبہ ان کی تدفین پاکستان میں کرنا چاہتی تھیں لیکن جنرل ایوب نے انہیں اجازت نہیں دی۔

بالآخر،اردشیر زہدی جو کہ شاہ ایران کے وزیرخارجہ اس وقت لندن میں سفیر تھے نے شاہ سے درخواست کی اور انہوں نے طیارہ بھیجا جس کے ذریعے اسکندر مرزا کی لاش کو تہران میں منتقل کیا گیا جہاں ان کی تدفین کی گئی۔

ذوالفقار علی بھٹو اور نصرت بھٹو کی ملاقات

نصرت سابنچی کا شمار بھی ایسے ہی افراد میں ہوتا ہے جو بیگم ہارون پاشا کے قریب رہے اور بعد ازاں انہوں پاکستان کی سیاسی تاریخ میں نمایاں مقام حاصل کیا۔

'بھٹو خاندان کو میری ساس اچھی طرح جانتی تھیں۔ان کی بیوی نصرت کو میں بہت پہلے سے جانتی تھیں کیونکہ ان کے والد ایرانی تھےجنھیں صابنچی کہہ کر پکارا جاتا تھا۔ ایرانی میں صابنچی کا مطلب صابن والا ہے۔ وہ بومبے میں تھے اورتقسیم کے بعد کراچی آنا چاہتے تھے۔اس پر میرے والد نے میری ساس کو خط لکھا اور بتایا کہ وہ ان صاحب کو اچھی طرح جانتے ہیں اگر ممکن ہو سکے تو انہیں اپنے یہاں کچھ دن قیام کرنے دیں جب تک وہ اپنا ٹھکانا نہیں ڈھونڈ لیتے۔میری ساس نے کہا کوئی مسئلہ نہیں وہ کسی بھی وقت آنا چاہیں تو آ سکتے ہیں۔ وہ یہاں آئے تو میری ساس نے انہیں گھر میں موجود گیسٹ ہاؤس میں ٹھرایا۔

پرانے وقتوں میں میرے سسر کے بہت سے دوست سعودی عرب میں رہتے تھے، یہاں چونکہ ہوٹلوں کی قلت تھی تو میرے سسر اپنے دوستوں کو گیسٹ ہاؤس میں ٹھراتے۔ میرے سسر کے انتقال کے بعد وہ گیسٹ ہاؤس خالی تھا، لہذا میری ساس نے انہیں وہاں ٹھرےا دیا۔

کچھ دنوں بعد میری ساس نے 'صابنچی' سے پوچھا کہ کیا ان کی فیملی نہیں ہے؟اس پر انہوں نے بتایا کہ میری دوسرے بیوی ہے، میرا ایک بیٹا اور د و غیر شادی شدہ بیٹیاں نصرت اور بھجت ہیں۔ میری ساس نے انہیں کہا کہ جاؤ اپنی بیوی بچوں کو لے کر آؤ میں تمھیں یہ گھر کا ایک حصہ دے دوں گی، جب تک تم کوئی کام شروع نہیں کرتے اور اپنا گھر نہیں لے لیتے۔ صابنچی نے بتایا کہ گھر خریدنے کیلئے ان کے پاس پیسے نہیں اور وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ کون سا کام شروع کریں کیونکہ پہلے میں صابن کا کاروبار کرتا تھا۔

اس پر میری ساس نے انہیں کہا کہ آپ ایران جائیں اور وہاں سے قالین خرید کر یہاں لائیں، میں انہیں خریدوں گی اور دوستوں سے بھی کہوں گی کہ وہ انہیں خریدیں۔ صانبچی نے ایسا ہی کیا، وہ اپنی بیوی بچوں کو بھی لے آئے اور اس طرح نصرت کی بھٹو سے ملاقات ہوئی، کیونکہ وہ ان کی اپنے ہم عمروں سعید ہارون، سلطان کرم علی بلخ شیر مزاری وغیرہ سے دوستی ہو گئی تھی۔ یہ سب دوست پیلس ہوٹل کے نائٹ کلب جاتے۔ یہ بہت اعلی رتبے کا کلب تھا جس میں داخلے کیلئے ممبر شپ ضروری تھی۔ان دنوں ماسوائے انگلش ، اینگلو انڈین یا پارسی لڑکیوں کے پاکستانی لڑکیاں غیر مردوں کے ساتھ کھلے عام باہرنہیں جاتی تھیں۔

لیکن سعید اور میرا بھائی مصطفی نصرت اور بیجت کے ساتھ کلب جاتے، بھٹو انگلینڈ سے اپنی تعلیم مکمل کر کے واپس آئے تھے۔ وہ سعید اور بلخ شیر وغیرہ کو جانتے تھے، اور اس طرح ایک شام کلب میں بھٹو کی نصرت سے ملاقات ہوئی اور انہیں نصرت سے پیار ہو گیا۔

بھٹو کی والدہ نہیں چاہتی تھیں کہ بھٹو کی نصرت سے شادی ہو۔ اس پر میری ساس بہت ناراض ہوئیں اور پوچھا کہ ایسا کیوں نہیں ہو سکتا کیونکہ نصرت ایک اچھی لڑکی ہے اور اس کاخاندان بھی اچھا ہے۔

یہی سچ ہے میں بڑھا چڑھا کر کچھ نہیں بتا رہی ۔ لوگوں کو اپنے رہنماؤں کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے۔