پاکستان

پی آئی اے پائلٹس کا احتجاج سےعلیحدگی کا اعلان

سیکیورٹی فراہم کرنے کی ضمانت پر 430 میں 410 پائلٹ جہاز اڑانے کیلئے تیار ہیں، صدرپائلٹس ایسوسی ایشن
|

کراچی: پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کے ملازمین کی ہڑتال کے پانچویں روز پائلٹس نے احتجاج سے الگ ہونے کا اعلان کر دیا۔

پی آئی اے پائلٹس ایسوسی ایشن کے صدر عامر ہاشمی کا میڈیا سے گفتگو میں کہنا تھا کہ پائلٹس اپنا کام کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن ہوا بازوں کو سیکیورٹی فراہم کی جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ پائلٹس کسی فیصلے میں تقسیم ہیں۔

عامر ہاشمی نے بتایا کہ 430 میں سے 410 پائلٹ جہاز اڑانے کے لیے تیار ہیں، پالپا کا کسی سیاسی جماعت کے ساتھ تعلق نہیں، یہ خالصتاََ پروفیشنل باڈی ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ پالپا کے ارکان سے مشاورت کے بعد ہڑتال ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا کیوں کہ آپریشن معطل ہونے سے مسافروں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہاہے.

عامر ہاشمی نے بتایا کہ ڈائریکٹر فلائٹس آپریشن کو خط ارسال کر دیا ہے اور سیکیورٹی کی فراہمی پر پائلٹس اپنی خدمات انجام دینے کے لیے تیار ہیں۔

پالپا کے صدر نے الزام عائد کیا کہ ہڑتال ختم کرنے پر احتجاج کرنے والے افراد کی جانب سے قتل سمیت دیگر دھمکیاں موصول ہو رہی ہیں، جس کے ویڈیو ثبوت بھی موجود ہیں۔

پائلٹس ایسوسی ایشن کے صدر نے نجکاری کی بھی شدید مخالفت کی اور حکومت پر انتظامیہ میں پروفیشنل افراد کی تعیناتی پر زور دیا.

ملازمین کے قتل کا مقدمہ درج

کراچی کے جناح انٹرنیشل ائیرپورٹ پر پی آئی اے کے ملازمین کے احتجاج میں ہلاک ہونے والے 2 افراد کے قتل کا مقدمہ درج کرلیا گیا۔

واضح رہے کہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے سربراہ سہیل بلوچ نے دعویٰ کیا تھا کہ ملازمین رینجرز کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے۔

جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے سربراہ سہیل بلوچ کی مدعیت میں درج کیے گئے مقدمے میں قتل اوراقدام قتل کی دفعات شامل کی گئی ہیں البتہ اس میں کسی کو نامزد نہیں کیا گیا۔

ائیر پورٹ تھانے میں مقدمہ نمبر 19/2016 نامعلوم افراد کے خلاف درج کروایا گیا۔

ڈان نیوز کے رپورٹر رضا جعفری کے مطابق مقدمہ میں کہا گیا ہے کہ سازش مجرمانہ تیار کی گئی اور ایک نامعلوم شخص کی فائرنگ سے 2 ملازمین کی ہلاکت ہوئی۔

مقدمے میں وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید، مسلم لیگ کے سینیٹر مشاہد اللہ خان، شجاعت عظیم سمیت 5 حکومتی شخصیات پر سازش کا الزام عائد کیا گیا۔

دوسری جانب پی آئی اے کی مجوزہ نجکاری کے خلاف ملازمین کا احتجاج بدستور جاری ہے اور پانچویں روز بھی فلائٹ سروس بحال نہ ہوسکی۔

تصاویر دیکھیں : پی آئی اے ملازمین کی ہڑتال

ملک بھرمیں فلائٹ آپریشن کے ساتھ ساتھ بکنگ دفاتر میں کام بند ہے اور کارگو، گراؤنڈ سپورٹ، فلائٹ بریفنگ اور انجینیئرنگ سمیت دیگر شعبوں میں بھی کام معطل ہے۔

یاد رہے کہ قومی اسمبلی میں گذشتہ ہفتے قبل 21 جنوری کو 6 بل پیش ہوئے تھے جن میں پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن (پی آئی اے) کے حوالے سے بھی ایک بل شامل تھا جس میں پی آئی اے کو پبلک لمیٹڈ کمپنی میں تبدیل کرنے کا بل بھی شامل تھا، اس بل کے تحت پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کارپوریشن کو پاکستان انٹرنیشل ایئر لائن کمپنی لمیٹڈ میں تبدیل کیا جائے گا.

یہ بل سامنے آتے ہی ملک بھر میں پی آئی اے کے ملازمین کی تنظیموں نے احتجاج شروع کر دیا، جس سے پی آئی اے کے امور متاثر ہونے لگے تھے.

منگل 2 فروری کی صبح فضائی آپریشن معطل کرنے کی دھمکی کے بعد حکومت نے 1952 کا لازمی سروسز ایکٹ نافذ کر دیا ، جس کے تحت تمام یونینز تحلیل ہو گئیں، جبکہ اب ہڑتال یا احتجاج کرنے والے ملازمین ملازمت سے فارغ کر دیئے جائیں گے.

مذکورہ ایکٹ کے نفاذ کے بعد ملازمین مزید مشتعل ہو گئے اور مزدور تنظیموں کے اتحاد نے کراچی کے جناح انٹرنیشنل ائیر پورٹ پر ریلی نکالنے کی کوشش کی، لیکن رینجرز اور پولیس کی فائرنگ، آنسو گیس شیلنگ اور لاٹھی چارج کے دوران 2 ملازمین ہلاک ہوئے.

ملازمین کی ہلاکت کے بعد ملک بھر میں پی آئی اے کا فلائٹ آپریشن بند ہونا شروع ہوگیا، جو 5 روز سے بند ہے، فلائٹ آپریشن کی بندش سے ادارے کو ایک اندازے کے مطابق 2 ارب 50 کروڑ روپے تک کا نقصان ہو چکا ہے.

بعد ازاں ملازمین کی ہلاکت پر پی آئی اے کے چیئرمین ناصر جعفر مستعفی ہو گئے جبکہ رینجرز نے قتل کی تحقیقات کے لیے 2 رکنی کمیٹی قائم کی کیونکہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے ملازمین کے قتل کا ذمہ دار رینجرز کو قرار دیا تھا.

رینجرز نے اس سلسلے میں ایک مشکوک شخص کی ویڈیو بھی جاری کی جو احتجاج میں شریک تھا، تاہم جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے اسے پی آئی اے کا ہی ملازم قرار دیا۔

پی آئی اے کے ملازمین کی جانب سے نجکاری کے خلاف احتجاج پر وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ ہڑتال کرنے والوں کو اپنے کیے کا خمیازہ بھگتنا ہوگا اور انھیں ملازمت سے برطرفی کے ساتھ ساتھ ایک سال کے لیے جیل بھی بھیجا جاسکتا ہے، ساتھ ہی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ کچھ سیاسی عناصر پی آئی اے کو ترقی کرتا نہیں دیکھنا چاہتے۔

دوسری جانب وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے احتجاج کو سیاسی کھیل قرار دیا، جبکہ وفاقی وزیر تجارت خرم دستگیر نے کہا کہ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) سمیت خسارے میں چلنے والے تمام اداروں کی نجکاری کرنا ہوگی، اسی طرح وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بیان دیا کہ سرکاری شعبے میں بہتری کے لیے اصلاحات کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔

ملازمین کی ہڑتال کے باعث حکومتی امور بھی متاثر ہوئے اور قائمہ کمیٹی کا اجلاس بھی اسی وجہ سے منسوخ کرنا پڑا جبکہ بعض اوقات حکومتی شخصیات کو ہوائی اڈوں پر ملازمین کے نعرے بھی سننا پڑے.

علاوہ ازیں حکومت کی جانب سے ہڑتال کے بعد نئی حکمت عملی پر بھی غور شروع کر دیا گیا اور یہ بات سامنے آئی کہ حکومت نئی ایئر لائن بنانے پر غور کر رہی ہے، جس پر یہ سوال اٹھایا گیا کہ پی آئی اے چل نہیں رہی تو کیا ضمانت ہے کہ نئی ایئرلائن بھی چل سکے۔

پی آئی اے کے ملازمین کی ہڑتال کے باعث فلائٹ سروس کی بندش کے بعد نجی ایئر لائنز نے کرایوں میں 3 سے 4 گنا اضافہ کر دیا اور 31 جنوری تک 7 ہزار روپے میں دستیاب ٹکٹ 21 ہزار روپے کا کر دیا گیا۔

4 روز کی فلائٹ سروس کی بندش کے بعد حکومت نے احتجاج کرنے والی جوائنٹ ایکشن کمیٹی سے رابطہ کیا.

جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے سربراہ کیپٹن سہیل بلوچ نے وفد کے ہمراہ چیئرمین نجکاری کمیشن اور وزیر نجکاری محمد زبیر سے کراچی میں ان کی رہائشگاہ پر ملاقات کی، تاہم یہ ملاقات کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکی اور تعطل برقرار رہا.


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔