پاکستان

حکومت کا نئی ایئر لائن بنانے پر غور

نجکاری کےخلاف احتجاج میں مزدور یونین نےقومی ایئر لائن بند کی ایسا پہلی بارہوا، یہ اقدام حکومت کے لیے شرمندگی کاباعث بنا
|

اسلام آباد: حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے اراکین کی جانب سے قومی ادارے کی نجکاری کے حوالے سے پارٹی کے منصوبے کے دفاع کے آغاز اور حکومت کے پاکستان انٹر نیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کے ملازمین کے احتجاج کے آگے نہ جھکنے کے عندیے کے بعد موجودہ صورت حال مزید کشیدگی کی جانب جاتی نظر آرہی ہے۔

واضح رہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے گزشتہ روز پی آئی اے کے چیئرمین نصیر جعفر کی جانب سے دیا جانے والا استعفیٰ منظور کرلیا ہے۔

وزیراعظم ہاؤس کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ اب سے ہوابازی کے سیکریٹری پی آئی اے کے چیئرمین کا اضافی عہدہ سنبھالیں گے۔

پی آئی اے کی موجود صورت حال پر وزیراعظم نواز شریف کی سربراہی میں ایک اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان، پیٹرولیم کے وزیر شاہد خاقان عباسی، سینٹر مشاہد اللہ خان اور گورنر خیبرپختون خوا مہتاب احمد خان عباسی نے شرکت کی۔

وفاقی وزیر خزانہ کا بیان: 'خسارے کا شکار اداروں کو بہتر کریں گے'

دوسری جانب علیحدہ ایک بیان میں وفاقی وزیر خزانہ نے اسحاق ڈار نے پی آئی اے میں انتظامی اصلاحات کرنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اسٹریٹجک شراکت داروں کی مدد سے منافع بخش اداروں، جیسا کہ قومی ایئر لائن کو نقصان سے نکالنے کیلئے انتظامی تبدیلیاں کی جائیں گی۔

واضح رہے کہ لازمی سروس بحالی (ای ایس ایم) ایکٹ 1952 کو نافذ کرنے کے بعد وفاقی وزارت داخلہ نے چار عہدیداران، اسلام آباد میں ہوابازی ڈیژن اور پشاور، لاہور اور کراچی میں پی آئی اے عہدیداران کو ان پی آئی اے ملازمین کے خلاف شکایات درج کرنے کی ہدایت کی ہیں، جو اپنی ڈیوٹیاں انجام نہیں دے رہے۔

ایویشن کے سینئر جوائنٹ سیکریٹری احمد لطیف، پی آئی اے کراچی کے ڈائریکٹر ہومن ریسورسز (ایچ آر) راشد احمد، پی آئی اے لاہور کے ڈپٹی جنرل میجنر (ایچ آر) موسیٰ خان اور پی آئی اے پشاور کے ڈپٹی جی ایم (ایچ آر) مبارک حیات کو ان شکایات کے اندراج کی ہدایت کی گئی ہے۔

وزیراعظم ہاؤس کے ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ حکومت کا مؤقف بہت واضح ہے کہ قومی ایئرلائن موجود صورت حال میں کام جاری نہیں رکھ سکتی اور اس کے آپریشنز میں بہتری لانے کیلئے انتطامی تبدیلیاں کرنا ضروری ہے۔

اجلاس میں شریک وزیراعظم کے انتہائی قریبی ذرائع کا کہنا تھا کہ 'کچھ بھی ہوجائے واپسی ممکن نہیں ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: پی آئی اے کو ایک ارب 80 کروڑ کا نقصان

تاہم ان کا مزید کہنا تھا کہ اجلاس میں شریک تمام ہی شرکاء نے اتفاق کیا ہے کہ پی آئی اے یونین کے ہاتھوں مزید بلیک میل نہیں ہوا جائے گا۔

اجلاس میں شریک مزید ایک سینئر حکومتی عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ 'یونین کی جانب سے انتہائی اقدامات اٹھائے گئے ہیں، جس میں قومی ایئر لائن کو بند کرنا بھی شامل ہے اور یہ تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے۔ یہ انتہائی برا تھا جو وہ کرسکتے تھے اور ان کا یہ اقدام حکومت کے لیے شرمندگی کا باعث بنا ہے۔ اب، فیصلہ ہمارا ہے اور ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ان کی شرائط پر مذاکرات نہیں ہونگے'۔

نئی ایئر لائن کے قیام کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انھوں نے تسلیم کیا کہ یہ خیال بھی اجلاس کے دوران زیر بحث آیا ہے، 'لیکن یہ ایک تجویز تھی تاکہ پی آئی اے یونین کی بلیک میلنگ کو ختم کیا جاسکے'۔

اس پر عمل درآمد کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے سینئر حکومتی عہدیدار نے کہا کہ حکومت کے لئے اس پر عمل درآمد کرنا مشکل نہیں ہے کیونکہ بہت سے تاجر اس ادارے میں سرمایہ کاری کرنے کے خواہش مند ہیں۔

مزید پڑھیں: تاخیر پر عابد شیر علی کو شرمندگی کا سامنا

خیال رہے کہ اس سے قبل اسحاق ڈار نے دبئی کے لیے روانہ ہونے سے قبل کہا تھا کہ انھوں نے پی آئی اے یونین سے مشاورت کی اور انھیں قانونی مدد لینے کا بھی کہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت ادارے کی صلاحیت میں اضافے کی خواہش مند ہے لیکن کچھ عناصر پی آئی اے کے ملازمین میں ادارے کی نجکاری کے حوالے سے غلط فہمیاں پیدا کررہے ہیں تاکہ ادارے میں مسائل پیدا کی جائیں۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ 'کوئی قابل ذکر منصوبہ نہیں ہے، یہاں صرف دو ہی انتخاب موجود ہیں کہ ان کے لوگوں کو ان کے گھر بھیج دیا جائے یا بزنس بڑھایا جائے اور ہمارا منصوبہ بزنس بڑھانے کا ہے'۔

انھوں نے کہ گزشتہ 3 روز میں ہونے والے واقعات کی تفصیلات کیلئے ایک انکوئری کا حکم دیا جاچکا ہے۔

یہ خبر 5 فروری 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔