'پھولوں والی نہر' کنارے سسکتی زندگی
پانی کو زندگی کی علامت مانا جاتا ہے، مگر یہ ایک ایسا مسافر ہے جو ہمیشہ سفر میں رہتا ہے۔ کبھی وہ دریا بن کر سمندر میں گرتا ہے، تو کبھی سمندر میں لہریں بن کر ساحلوں کو چھونے کی کوشش کرتا اور کبھی یہی پانی نہروں سے بہہ کر زمین کو سیراب کرتا ہے۔ پانی اپنا سفر ہر صورت میں جاری رکھتا ہے۔ اس کا کوئی ایک ٹھکانا نہیں ہوتا اور ہمیشہ اپنا راستہ خود بناتا رہتا ہے۔
جس طرح دنیا کی تمام تہذیبوں کا جنم دریاؤں کے کنارے ہوا ہے، اسی طرح کچھ زندگیاں پانی کے کنارے ہی جنم لیتی ہیں، وہیں سانس لیتی ہیں اور وہیں دم توڑ دیتی ہیں۔ سندھ میں چند نہروں کے کنارے ایسے بھی ہیں جو کئی دہائیوں سے ایک بڑی انسانی آبادی کو پال رہے ہیں۔ مگر ان کناروں پر صرف لوگ زندگی نہیں گزارتے بلکہ کوئی نہ کوئی روزگار بھی کرتے ہیں۔ میں نے بھی حیدرآباد میں نہر کے وہ کنارے دیکھتے ہیں، جہاں ایک ایسا جہاں آباد ہے جو اپنے اندر کئی کہانیاں سموئے ہوئے ہے۔
حیدرآباد سے گزرنے والی پھلیلی نہر کے دونوں کناروں پر ایسے گھر ہیں جو نہ تو تیز ہوا کے جھونکوں کی مار سہہ سکتے ہیں اور نہ ہی برسات پڑنے پر ان میں رہنے والوں کو بھیگنے سے بچا سکتے ہیں، مگر وہاں آباد لوگ انہیں گھر کہتے ہیں۔ اور گھر صرف اینٹوں اور سمینٹ سے بنی عمارت کا بھی نام نہیں ہوتا بلکہ یہ تو ایک ایسے احساس کا نام بھی ہے جہاں رشتے پنپتے ہیں، ایک دوسرے کا خیال رکھا جاتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ گھر کو دیواروں سے زیادہ محبت کی مٹی ہی مضبوط بناتی ہے۔