نقطہ نظر

پی آئی اے نجکاری: درست سمت میں غلط قدم

ہمارا عام رویہ یہ ہے کہ وقت ضائع کیے بغیر مختصر راستہ اختیار کر لیا جائے اور اس کے لیے تشدد کارآمد ہے۔

میکاولی نے کہا تھا کہ بہتر ہے کہ لوگ آپ سے ڈریں، بجائے اس کے کہ وہ آپ سے پیار کریں۔ ہماری موجودہ حکومت بھی شاید اسی چیز پر عمل پیرا ہے۔

پہلے پی آئی اے کے ملازموں کو دھمکایا گیا کہ اگر کسی نے بھی تباہ حالی کا شکار اس ایئرلائن کی نجکاری کے خلاف ہونے والی ہڑتالوں میں حصہ لیا تو انہیں حوالات میں ڈال دیا جائے گا۔

1970 کی دہائی میں پی آئی اے دنیا کی بہترین ائیر لائنز میں سے ایک تھی۔ تب سے لے کر اب تک یہ گہرے زوال کی طرف مائل رہی ہے۔ اس میں سفر کے دوران یوں محسوس ہوتا ہے کہ تھر کی ریتیلے ٹیلوں پر کشتی چل رہی ہو۔ یہ نہیں بتایا جاتا کہ کس وقت اور کتنی دیر میں اپنی منزل تک پہنچ پائیں گے، لیکن تکالیف کی گارنٹی ہوتی ہے۔

پڑھیے: اداریہ ڈان: پی آئی اے کی نجکاری

2 فروری کو پی آئی اے اور سکیورٹی اہلکاروں کے درمیان جھڑپ ہوئی جس کے نتیجے میں دو افراد گولی لگنے سے ہلاک ہوگئے، جبکہ کوریج کے لیے موجود صحافیوں سمیت کئی افراد زخمی ہوئے۔

اونٹ کے منہ میں زیرے کی طرح سندھ کے وزیر اعلٰی نے ہلاک شدگان کے لواحقین کے لیے 20 لاکھ روپے کی رقم کا اعلان کیا۔ ان روپوں سے نہ انہیں زندگی واپس ملے گی اور نہ ہی ان کے گھر والوں کے غم و غصے کا مداوا ہوسکتا ہے۔

پاکستان کے متوسط اور نچلے متوسط طبقے کے افراد کی زندگی چھوٹی نہیں ہوتی بلکہ بہت طویل ہوتی ہے اور جو بلوں، خوف و ہراس اور بڑھتی مہنگائی جیسے مسائل کی لہروں کے درمیان پھنسی رہتی ہے۔

آپ تصور کیجیے کہ آپ کئی افراد کے گھرانے کے واحد کفیل ہوں اور آپ کی مہانہ تنخواہ گم ہوجائے۔ پھر غربت اور اس سے جنم لینے والے عدم تحفظات، سب سے بڑھ کر تشدد کا خطرہ جو آپ کے تمام اثاثے تباہ کر سکتا ہے، لہٰذا آپ اپنی جان داؤ پر لگا کر اس کی حفاظت کرتے ہیں۔

احتجاج کے بنیادی حق کے خلاف نئے حکم نامے جاری کرنا، پولیس کے ظلم پر آنکھیں پھیر لینا، اور جب کوئی زندگی کھو بیٹھے، تو رشتے داروں کے منہ پر اس کی زندگی کی حقیر قیمت مارنا۔

تصاویر: پی آئی اے ملازمین کی ہڑتال اور جھڑپ کے مناظر

نجکاری کے کئی فائدے ہیں، لیکن یہ تمام فائدے ایک طرف رکھیں۔ صرف قومی ایئرلائن کے انتظامی معاملات میں بدانتظامی نہیں، بلکہ بدانتظامی کے ازالے کے لیے کی گئی کوششوں میں بھی بدانتظامی موجود ہے۔

بحیثیتِ قوم ہم دنیا کے بدترین مذاکرات کار ہیں۔ ہم بیٹھ کر مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل نہیں کر سکتے، پھر چاہے وہ یونین ہوں یا اسٹیک ہولڈرز۔

اس کا مطلب ہے کہ ہمارا عام رویہ یہ ہے کہ وقت ضائع کیے بغیر مختصر راستہ اختیار کر لیا جائے اور اس کے لیے تشدد کارآمد ہے۔ اس حقیقت کے ساتھ ایک اور بھی حقیقت ہے کہ اگلے ہفتے الم و رنج کی نئی داستانیں ہوں گی، کیونکہ آہنی ہاتھ اور بھی بہت کچھ کر سکتا ہے۔

جانیے: پی آئی اے فلائٹ سروس دوسرے روز بھی معطل

ایک متبادل اختیار بھی ہوتا ہے جسے اخلاقی اختیار کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ لفظ سے ہی واضح ہے، اس سے حکومتیں اپنی ساکھ کو منصفانہ اور مساوی بناتی ہیں اور اس کے بعد ہی سخت اقدام اٹھائے جاتے ہیں۔

اس پیغام کو جتنا جلدی ہوسکے پاکستان کے معاملات چلانے والوں تک رسائی کی ضرورت ہے۔ پیغام اگر قومی ائیر لائن علاوہ کسی اور ایئر لائن کے ذریعے بھیجا جائے تو بہتر ہوگا۔

انگلش میں پڑھیں.

عائشہ سروری

عائشہ سروری اسلام آباد میں مقیم لکھاری ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: AishaFSarwari@

ان کا بلاگ :یہاں وزٹ کریں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔