اسکولوں کی سیکیورٹی کے لیے 'عجیب اقدام'
پشاور: صوبہ خیبر پختونخوا کے ایلیمنٹری اور ثانوی تعلیمی بورڈز نے ایک 'عجیب' اقدام اٹھاتے ہوئے تمام اسکولوں کو ہدایت کی ہے کہ اگر اُن کا چوکیدار، ہتھیار نہیں چلا سکتا تو وہ اپنے کسی تربیت یافتہ رشتہ دار کو اس مقصد کے لیے اپنے ساتھ لاسکتا ہے.
صوبے کے تعلیمی اداروں کی سیکیورٹی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے حال ہی میں ڈپارٹمنٹ سیکریٹریٹ میں ہونے والے ایک اجلاس کے دوران تمام ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسرز (ڈی ای اوز) کو اس فیصلے سے آگاہ کیا گیا.
ڈائریکٹر آف ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن اور تمام ڈی ای اوز کو جاری کیے گئے سرکلر میں کہا گیا کہ اسکول چوکیدار کے معاملہ پر پیرنٹس-ٹیچرز کونسل (پی ٹی سی) کے ساتھ بحث کی جانی چاہیے.
مزید کہا گیا کہ اگر پی ٹی سی رضامند ہوجاتی ہے تو چوکیدار کو ایک بندوق فراہم کی جائے گی، جس کے بعد متعلقہ ڈی ای او مقامی انتظامیہ سے لائسنس جاری کرنے کے لیے رابطہ کرے گا.
سرکلر کے مطابق اگر کسی وجہ سے چوکیدار، ہتھیار سنبھالنے کے قابل نہیں پایا گیا تو اسے اپنے لیے کسی ایسے رشتہ دار کا 'بندوبست' کرنا پڑے گا، جو بندوق چلانا جانتا ہو.
مزید کہا گیا کہ اسکول کے کمروں میں گِرلز بھی فوری پر لگائی جائیں، خاص کر اُن کمروں میں جن میں کھڑکیاں موجود ہوں اور جو سڑک یا کسی کھلی جگہ پر کُھلتی ہوں، جبکہ گرل کے ساتھ ساتھ لوہے کی جالی لگانے کا حکم بھی دیا گیا ہے.
مذکورہ سرکلر میں محکمہ تعلیم نے اس بات کی وضاحت کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ بندوق خریدنے کے لیے پی ٹی سی فنڈز کا انتظام کہاں سے کرے گی.
محکمہ تعلیم کے ایک سینیئر عہدیدار کے مطابق ڈپارٹمنٹ، پیرنٹس-ٹیچرز کونسل (پی ٹی سی) کو سالانہ 10 ہزار روپے فی کلاس کی مرمت اور دیگر ضروری اشیاء کے لیے جاری کرتا ہے، اس کے علاوہ پی ٹی سی کو کوئی اور فنڈ جاری نہیں کیا جاتا.
مزید دیکھیں:پشاور کے اسکولوں میں سیکیورٹی مشقیں
ایک ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر نے ڈان سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایک ہیڈ ماسٹر کس طرح چوکیدار کو کہے گا کہ وہ بندوق پکڑنے اور اسکول کی سیکیورٹی کے لیے اپنے ساتھ ایک رشتے دار کو ساتھ لائے.
مذکورہ افسر کے مطابق وہ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ایک باہر کا بندہ کسی اسکول کی سیکیورٹی کے لیے اپنی جان خطرے میں کیوں ڈالے گا.
ان کا مزید کہنا تھا کہ حالیہ ہدایات سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسکول کی تمام تر سیکیورٹی 'چوکیدار' اور اس کے 'رشتے داروں' کی ذمہ داری ہے. واقعی، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اسکول سیکیورٹی کی ذمہ داری محکمہ تعلیم پر ڈال دی جنھوں نے پی ٹی سی کو ہدایات جاری کردیں کہ وہ چوکیدار یا اس کے رشتے دار کو اسلحہ فراہم کرے.
اسکولوں کی سیکیورٹی کے لیے صوبائی محکم تعلیم کی جانب سے جاری ہونے والی حالیہ ہدایات چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی پر حملے کے بعد جاری کی گئیں، جبکہ سرکلر میں کہا گیا، 'صوبے کے تمام اسکولوں کی فول پروف سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے ان ہدایات پر ان کی روح کے مطابق عمل کیا جانا چاہیے.'
محکمہ تعلیم کے افسران کے علاوہ مذکورہ سرکلر انسپکٹر جنرل آف پولیس، تمام ڈویژنل کمشنرز، تمام ڈپٹی کمشنرز اور پراجیکٹ ڈائریکٹرز کو بھی بھیجا گیا.
اس سلسلے میں جب ایلیمنٹری اور سیکنڈری اسکول ایجوکیشن کے سیکریٹری افضل لطیف سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے میڈیا سے بات کرنے سے معذرت کرلی اور اسپیشل سیکریٹری عاطف خان سے رابطہ کرنے کو کہا، تاہم متعدد بار کوششوں کے باوجود بھی اسپیشل سیکرٹری سے رابطہ ممکن نہ ہوسکا.
اس سے قبل صوبائی حکومت نے تمام تعلیمی اداروں کے لیے اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز (ایس او پیز) جاری کیے تھے، جن کے مطابق اسکولوں کے ہیڈ ماسٹروں کو ہدایات دی گئی تھیں کہ وہ سیکیورٹی گارڈز تعینات کریں، باؤنڈری وال تعمیر کی جائے، جبکہ دیواریں اونچی کرنے کے ساتھ ساتھ اُس پر خاردار تاریں بھی نصب کی جائیں، اس کے ساتھ ساتھ سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب اور اسکول کے مرکزی دروازے کے سامنے بیریئرز لگانے کی بھی ہدایات دی گئی تھیں.
واضح رہے کہ اب تک مناسب سیکیورٹی اقدامات نہ ہونے کے باعث ہولیس سرکاری و نجی اسکولوں کے ہیڈ ماسٹروں کے خلاف 700 ایف آئی آر درج کرچکی ہے.
یہ خبر 3 فروری 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔