نقطہ نظر

جولیاں درسگاہ: خوبصورت کمال، دردناک زوال

چودھویں کی رات اب بھی اس درسگاہ کے ویران آنگن اور سوکھے تالاب پر پڑتی ہے، مگر اب کسی آواز کا کوئی چرچہ یہاں نہیں ہوتا۔

بہار کے موسم میں جب چہار سو پھول کھلے ہوتے ہیں، آم کے پیڑوں میں جھولے پڑے ہوتے ہیں، درختوں کے ہرے رنگ میں نکھار سا آجاتا ہے، امبر نکھر نکھر جاتا ہے، تب اس بہار کے وجود میں خزاں یہ سب دیکھ رہی ہوتی ہے۔

پھر بہار کے وجود سے ہی خزاں جنم لیتی ہے۔ درختوں سے ہریالی یوں روٹھ جاتی ہے جیسے کبھی ان کی تھی نہیں۔ پرندے جاڑوں کی ٹھنڈ سے بچنے کے لیے اپنے بنائے ہوئے گھونسلوں میں جا کر پناہ لیتے ہیں، اس امید پر کہ جاڑوں کے یہ دن گزریں گے، جاڑوں کی کوکھ سے پھر بہار جنم لے گی اور وہ پھر سے برستی بدلیوں میں نیلے امبر پر اڑ سکیں گے، گیت گا سکیں گے اور ایک بار پھر آموں پر بور آئے گا۔

پر جولیاں کے پانی کا تالاب، وسیع آنگن، علم کے طالبوں کے کمرے اور اس کا آسمان شاید اتنا خوش نصیب نہیں تھا کہ ایسی امیدوں اور تمناؤں کے بیج اپنے سوچ کے آنگن میں بوتا۔

مئی کے ایک گرم دن جب میں لنک روڈ کے اختتام پر پہنچا تو ڈرائیور نے مجھے دیکھا، اور کچھ اس طرح سے دیکھا کہ میں سمجھ گیا کہ اب مجھے گاڑی سے اتر جانا چاہیے۔ جنوب مشرق میں ہتھیال پہاڑوں کے سلسلے پر درختوں کے جھنڈ میں جولیاں تھا۔ میں پیدل چلتا چلتا پانی کی چھوٹی نہر پر آیا جو شمال سے دور کہیں پہاڑوں کے دامن سے سفر کرتی ہوئی آتی ہے۔ صاف شفاف اور یخ ٹھنڈا پانی، جو اس گرمی میں کسی نعمت سے یقیناً کم نہیں تھا۔ اس نہر کی چھوٹی سی پلیا پار کر کے پھر میں وہ سیڑھیاں چڑھنے لگتا ہوں جن کے اختتام پر جولیاں ہے۔

جولیاں کا سائٹ پلان.
درسگاہ کا مرکزی دروازہ.
درسگاہ کا مرکزی دروازہ.
مرکزی احاطے میں قطار در قطار کمرے موجود ہیں.
مرکزی احاطے میں قطار در قطار کمرے موجود ہیں.

جولیاں فقط خاموش آثارِ قدیمہ کی سائیٹ نہیں ہے، یہ صدیوں کے تسلسل کا نام ہے۔ کوٹلیہ چانکیہ نے ارتھ شاستر تحریر کی جس میں حکومت کرنے کے طریقے بتائے گئے ہیں، پاننی، جو ٹیکسلا کے قریب سلوترا کا رہنے والا تھا، اس نے سنسکرت کی پہلی گرامر بنائی۔ وہ ایک ذہین معلم اور مصنف تھا۔ اس نے اپنی کتابوں میں یونانی زبان اور رسم الخط کا بھی ذکر کیا ہے اور سنسکرت اور یونانی زبان کے درمیان گرامر کے رشتوں اور تانوں بانوں پر بھی بحث کی ہے۔

یہ پاتنجلی جیسے مہا گیانی پنڈت اور ویدک زمانے کا تسلسل بھی ہے جب سپت سندھو میں سات آٹھ بڑی ریاستوں کے نشان ملتے ہیں، جن میں ایک سندھ اور جہلم کے درمیان گندھارا تھا۔ آریوں نے بعد میں جو شہر بسائے ان میں سب سے بڑا مرکز ٹیکسلا تھا۔

سبطِ حسن اس حوالے سے تحریر کرتے ہیں: "مہابھارت کے ساتھ وادی سندھ میں آریائی تہذیب کا دور ختم ہوا جو رگوید سے شروع ہوا تھا لیکن یہ ضرور ہوا کہ جو بھی نئے فاتح آئے اور جو روایتیں آریوں نے قائم کی تھیں ان کو مٹا نہ سکے۔ خاص کر آریوں کی مذہبی زبان سنسکرت اور ان کی پراکرتوں بالخصوص 'خروشٹی' اور 'شورسینی'۔ آگے چل کر یہی پراکرتیں ہماری زبانوں کی اساس بنیں۔"

میں جولیاں کے خوبصورت دنوں کے متعلق سوچتے سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ درختوں سے ٹھنڈی ہوا آتی اور تازگی کا احساس جسم و روح میں بھر دیتی۔ میں جب اوپر پہنچا تو آرکیولاجی ڈپارٹمنٹ کا چوکیدار سیمنٹ کی بینچ پر بیٹھ کر مجھے غور سے دیکھ رہا تھا۔

احاطے میں ایک تالاب ہے جس کے گرد کمرے بنائے گئے ہیں.
تالاب کے گرد بنائے گئے کمرے.
باورچی خانے کے منتظم کا کمرہ.
کبھی اس جگہ سے خوراک کے احکامات جاری ہوتے ہوں گے.

اس نے مجھے بیٹھنے کے لیے اشارہ کیا۔ نیچے لکیر کی طرح وہ نالہ بہتا تھا اور شمال سے ٹھنڈی ہوا آتی تھی۔ پسینہ سوکھنے کے بعد ہم دونوں ساتھ چل پڑے تاکہ وہ یونیورسٹی دیکھ سکوں جہاں اپنے زمانے میں طالبعلم دور دور سے یہاں علم کی پیاس بجھانے آتے اور اتالیق یہاں مختلف موضوعات پر لیکچر دیتے۔

اشوک کے بعد موریا سلطنت پر زوال آیا تو باختر کے یونانی نژاد بادشاہوں نے وادیء سندھ پر قبضہ کرلیا اور پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ یونانیوں کے اقتدار کا سورج پہلی صدی میں ہمیشہ کے لیے ڈوب گیا۔ ساکاؤں نے اپنی آخری یلغار میں یونانیوں کو شکست دے کر گندھارا پر قبضہ کر لیا اور رفتہ رفتہ ان کی سلطنت 90 قبلِ مسیح سے 25 عیسوی تک پنجاب اور سندھ سے متھرا تک پھیل گئی۔ ان کا جھکاؤ بدھ مت کی طرف تھا، مگر دوسرے مذہبوں سے بھی ان کا برتاؤ بڑی رواداری اور نرمی کا رہا۔ ساکاؤں کو ٹیکسلا میں راج کرتے سو سال گذرے تھے کہ پارتھیوں کا ریلہ آیا اور ساکاؤں کے اقتدار کو بہا کر لے گیا۔

پارتھین ایرانی نژاد مہذب لوگ تھے، چنانچہ گندھارا آرٹ کی ابتدا ان کے دور میں ہی ہوئی۔ انہوں نے یہاں 53 برس تک حکومت کی۔ اس کے بعد کُشن قوم نے سر اٹھایا اور وادیء سندھ پر قبضہ کرلیا۔ کشنوں نے دو سو برس تک حکومت کی۔ سلطنت کا مرکز چونکہ گندھارا کا علاقہ تھا، اس لیے گندھارا کو ترقی کے خوب مواقع ملے۔ گندھارا آرٹ اس تہذیبی ترقی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

جولیاں کے مرکزی اسٹوپا کے اردگرد چھوٹے چھوٹے 21 اسٹوپا ہیں۔ ان میں سے بعض کے متعلق ماہرین کا خیال ہے کہ وہ درحقیقت وہاں مدفون راہبوں کی قبروں پر بنائے گئے ہیں۔ یہ اسٹوپے گندھارا آرٹ کی خوبصورتی کا ایک نادر نمونہ ہیں۔ جہاں نظر جاتی ہے، سدھارتھ مختلف منظروں میں بڑے پرسکون نظر آتے ہیں۔

مرکزی اسٹوپا.

اسٹوپا کے بعد ایک مرکزی دروازے سے آپ اس اہم حصے میں پہنچتے ہیں جسے ہم درسگاہ کا اعزاز دیتے ہیں۔ یہاں پانی کا تالاب اور اس کے گرد طالب علموں کے لیے 28 کمرے بنے ہیں، جبکہ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ اس کی دوسری منزل بھی تھی جس پر شاید اتنے ہی کمرے تھے۔ پھر یہاں وہ باورچی خانہ بھی موجود ہے جس میں یہاں قیام کرنے والوں کے لیے خوراک بنتی تھی۔

ہتھیال کی پہاڑیاں اور کیکر کے درختوں کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ صدیوں سے یہاں تعظیم میں کھڑے ہیں، درخت چھاؤں دینے کے لیے اور پہاڑیاں اس درسگاہ کی حفاظت کے لیے۔ پھر باورچی خانے کے منتظم کا کمرہ ہے۔ کسی زمانے میں خوراک بنانے کے احکامات یہاں سے جاری ہوتے ہوں گے۔

ہم جب وادی ٹیکسلا کے آرکیولاجیکل سائیٹس کا تصور کرتے ہیں تو ایک حیران کن نقشہ ہمارے ذہنوں میں ابھر کر آتا ہے۔ آباد شہر، گلیاں، گلیوں میں ہوتی ہوئی خرید و فروخت، اسٹوپا، دور دراز کے علاقوں سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے آتے ہوئے شاگرد، زندگی کے الجھے ہوئے رازوں پر ہوتے ہوئے بحث و مباحثے۔ معلموں کے لیکچر، سنگتراشی، تصویریں بنانے کے لیے رنگوں کا استعمال، علم سیکھنے کے بعد اعزازات، یہ سارے مناظر اس وقت کا ایک خوبصورت پینوراما بناتے جاتے ہیں۔

مرکزی اسٹوپا کے گرد 21 چھوٹے اسٹوپا قائم ہیں.
تقریبآ دو ہزار سال گزرنے کے بعد بھی یہ اچھی حالت میں ہیں.
مرکزی اسٹوپا کے پاس پتھر میں تراشا گیا ایک مجسمہ.
دیواروں میں بہترین سنگتراشی کی گئی ہے.

انجینئر مالک اشتر لکھتے ہیں: "سنِ عیسوی کے آغاز میں گندھارا کا دارالحکومت ٹیکسلا تھا۔ اس کی خوشحالی کی خبریں دور دور تک پھیلی ہوئی تھیں۔ مشرقِ بعید، وسطی ایشیا، ایشیا کوچک اور ہندوستان کے دور افتادہ علاقوں سے سینکڑوں طلبا علم کی پیاس بجھانے یہاں کی جامعات کا رخ کرتے۔ جولیاں ان جامعات میں ایک نمایاں نام تھا اور یہ اس وقت کی ماڈرن یونیورسٹی تھی۔ یہاں معاشیات، تیر اندازی، قانون، فنون لطیفہ، حربیات اور دوسرے علوم و فنون سکھائے جاتے، اور ان کا جب عملی امتحان ہوتا تو اتالیق اپنے چیلوں کو بھیجتے تھے کہ ٹیکسلا میں جاؤ اور ایسی بوٹی ڈھونڈ کر لاؤ جو کسی دوا کے کام نہ آتی ہو۔ یہ سب علمی روایت کا تسلسل تھا۔"

وقت کا کام بدلنا ہے، اور پھر وقت کے آسمان نے رنگ بدلے۔ کمال کی کوکھ سے زوال کا بیج پھوٹ ہی پڑا۔ 460 میں ظالم، بے رحم اور وحشی 'حُنوں' نے شہروں اور بستیوں کو مسمار کردیا اور اسٹوپاؤں اور وہاروں کو آگ کے زرد شعلوں کے نذر کردیا۔ ہزاروں بے گناہ انسان بے دردی کی موت مارے گئے۔ اس حملہ نے اس وسیع لینڈ اسکیپ کے نصیبوں میں ویرانی کی ریت بھر دی۔

یہ ہی زمانہ تھا جب 'مگدھ' (بہار) میں نالندا وہار کی بنیاد پڑی۔ یہ اپنے زمانے کی عظیم یونیورسٹی تھی، بالکل ایسے جیسے ٹیکسلا میں دھرماراجیکا اور جولیاں تھیں۔ علم کے دیپ جو ایک دفعہ جل جائیں تو پھر کبھی نہیں بجھتے، اور اگر ایک جگہ بجھا دو تو وہ اپنی روشنی دینے کے لیے دوسری جگہ جل ہی پڑتے ہیں۔

کسی زمانے میں یہ پانی کا تالاب تھا، اب مٹی کا تالاب بن چکا ہے.
مرکزی اسٹوپا.

مشہور چینی سیاح ہوانگ سانگ 629 میں یہاں آیا۔ وہ سوات کا ذکر کرتے کہتا ہے: "یہاں کسی زمانے میں 18 ہزار بھکشو رہتے تھے، لیکن اب وہار اور اسٹوپا ویران پڑے ہیں، البتہ یہاں ہندوؤں کے دس مندر بن گئے ہیں۔ ٹیکسلا کا حال بھی کچھ اس طرح کا بیان کیا گیا ہے۔ دسویں صدی میں کتاب الہند کے مصنف ابو ریحان البیرونی (1048-973) نے ٹیکسلا کو دیکھا تھا، تو تب یہ شہر ویران ہو چکا تھا۔

نہ جانے مکمل چاند کی ٹھنڈی چاندنیاں اس درسگاہ کے آنگن میں کتنی صدیوں تک پڑتی رہی ہیں۔ چودھویں کی رات اب بھی اس درسگاہ کے ویران آنگن اور سوکھے تالاب پر پڑتی ہے، مگر اب کسی آواز کا کوئی چرچہ یہاں نہیں ہوتا۔ وہ دیپ کب کے بجھ چکے جن کی روشنی میں علموں کا مطالعہ اور بحث و مباحثے ہوتے تھے۔ اب نہ کوئی علم کا طالب ہے اور نہ کسی اتالیق کا پرنور چہرہ۔ بس سدھارتھ کے مجسمے ہیں جو شب و روز اپنی پسندیدہ تنہائی میں یہاں نہ جانے کس کے انتظار میں اپنی آنکھیں موندے بیٹھے ہیں۔

— تصاویر بشکریہ لکھاری۔


ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے تبصروں سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

ابوبکر شیخ

ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔