جولیاں درسگاہ: خوبصورت کمال، دردناک زوال
بہار کے موسم میں جب چہار سو پھول کھلے ہوتے ہیں، آم کے پیڑوں میں جھولے پڑے ہوتے ہیں، درختوں کے ہرے رنگ میں نکھار سا آجاتا ہے، امبر نکھر نکھر جاتا ہے، تب اس بہار کے وجود میں خزاں یہ سب دیکھ رہی ہوتی ہے۔
پھر بہار کے وجود سے ہی خزاں جنم لیتی ہے۔ درختوں سے ہریالی یوں روٹھ جاتی ہے جیسے کبھی ان کی تھی نہیں۔ پرندے جاڑوں کی ٹھنڈ سے بچنے کے لیے اپنے بنائے ہوئے گھونسلوں میں جا کر پناہ لیتے ہیں، اس امید پر کہ جاڑوں کے یہ دن گزریں گے، جاڑوں کی کوکھ سے پھر بہار جنم لے گی اور وہ پھر سے برستی بدلیوں میں نیلے امبر پر اڑ سکیں گے، گیت گا سکیں گے اور ایک بار پھر آموں پر بور آئے گا۔
پر جولیاں کے پانی کا تالاب، وسیع آنگن، علم کے طالبوں کے کمرے اور اس کا آسمان شاید اتنا خوش نصیب نہیں تھا کہ ایسی امیدوں اور تمناؤں کے بیج اپنے سوچ کے آنگن میں بوتا۔
مئی کے ایک گرم دن جب میں لنک روڈ کے اختتام پر پہنچا تو ڈرائیور نے مجھے دیکھا، اور کچھ اس طرح سے دیکھا کہ میں سمجھ گیا کہ اب مجھے گاڑی سے اتر جانا چاہیے۔ جنوب مشرق میں ہتھیال پہاڑوں کے سلسلے پر درختوں کے جھنڈ میں جولیاں تھا۔ میں پیدل چلتا چلتا پانی کی چھوٹی نہر پر آیا جو شمال سے دور کہیں پہاڑوں کے دامن سے سفر کرتی ہوئی آتی ہے۔ صاف شفاف اور یخ ٹھنڈا پانی، جو اس گرمی میں کسی نعمت سے یقیناً کم نہیں تھا۔ اس نہر کی چھوٹی سی پلیا پار کر کے پھر میں وہ سیڑھیاں چڑھنے لگتا ہوں جن کے اختتام پر جولیاں ہے۔