سفید پوشوں کا جوتا بازار
جوتے کی قدر تپتے صحرا میں ننگے پاؤں چلنے والوں سے زیادہ کون جان سکتا ہے۔
عرب شاعری میں بھی پاپوش کا تذکرہ بالخصوص ملتا ہے، اہل عرب کی تہذیب و ثقافت پر محمود شکری آلوسی کی کتاب بلوغ الارب میں باقاعدہ جوتوں پر اشعار کا ایک باب موجود ہے۔ اس میں ایک شعر یوں بھی ہے کہ "تپتی ریت پر چلنے والے جن کے پاؤں کانٹوں سے زخم زخم ہوجائیں، وہ پیروں میں کچھ بھی پہن سکتے ہیں‘‘۔
شہر کی پکی سڑکوں پر چلنے والوں کا معاملہ اس سے کچھ مختلف نہیں۔ بمشکل پندرہ بیس ہزار روپے کا ہندسہ چھونے والے ملازمت پیشہ افراد کو روزگار کی اس تنی رسی پر چلنے کے لیے ’فارمل‘ شوز پہننا ہوتے ہیں۔ جسمانی صحت کے لیے واک یا ورزش کرنے والے ایسے بھی ہیں جن کے نزدیک پہلی شرط پہلا قدم رکھنا نہیں بلکہ پاؤں میں ’جاگر‘ ہونا ہے۔
لباس اور نشست و برخاست میں نک سک کا خیال رکھنے والے تہی جیب کیژوئل، سنیکرز اور لوفرز کی جانب للچائی ہوئی نگاہوں سے تکتے ہیں اور ایسے بھی ہیں کہ جس طرح تن ڈھانپنے کو دو کپڑوں کی جستجو میں ہوتے ہیں وہیں بس اپنی برہنہ پائی کا بھرم رکھنے کے لیے ایک جوڑی جوتے بھی ان کے لیے عیاشی ہے۔