لائف اسٹائل

موسیقی کے آلات بنانے والی کلثوم حمید

کلثوم نے اپنا پہلا آلہ 'سرنا' نامی موسیقی کے آلہ سے متاثر ہوکر بنایا، جس سے ان کی بچپن کی یادیں وابستہ ہیں۔

بلوچستان کے ضلع پشین کے ایک دور دراز گاؤں خانوزئی میں رہائش پزیر نہایت قابل کمہار کلثوم حمید کا تعلق ایک پشتون گھرانے سے ہے جو افغانستان سے ہجرت کرنے کے بعد بلوچستان میں بس چکا ہے۔

دوسرے فنکاروں کی طرح کلثوم نے بھی وژول آرٹس میں داخلہ لینے کے لیے کافی جدو جہد کی اور اپنے والدین کی خواہش کے خلاف مزاحمت کی جو ان کا داخلہ میڈیکل سائنسز میں کرانا چاہتے تھے۔

اپنے کیرئیر کے ابتدائی دنوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا ’میں بہت خاموش طبع تھی اور ہمیشہ سے ہی وژول آرٹس میں داخلہ لینا چاہتی تھی‘۔

اپنا ایف ایس سی مکمل کرنے کے بعد کلثوم نے اعلان کردیا کہ یا تو وہ آرٹس پڑھیں گی تا پھر کچھ نہیں پڑھیں گی۔

کوئٹہ میں بلوچستان یونیورسٹی سے وژول آرٹس میں بنیادی کورس کرنے کے بعد انہوں نے لاہور کے نیشنل کالج آف آرٹس میں سرامکس ڈیزائن کے کورس میں داخلہ لے لیا۔

ابتداء میں کلثوم نے زیادہ تر گھر کے انٹیریئر کے لیے آرائشی سامان، چھوٹے پیمانے پر پیچیدہ خطاطی پینل، پچی کاری اور آرائشی برتن وغیرہ تیار کیے. اپنی تعلیم کے دوران انہوں نے سرفیس ٹریٹمنٹ اور ٹیسکچرز کی وسیع رینج کا بھی تجربہ کیا۔

تقریباً تین سال کی سٹوڈیو پریکٹس اور تعلیمی تحقیق میں کڑی محنت کے بعد انہوں نے موسیقی کا ایک آلہ تیار کیا۔

یہ آلہ انہوں نے 'سرنا' نامی آلہ موسیقی سے متاثر ہوکر بنایا، جس سے ان کی بچپن کی یادیں وابستہ ہیں۔

اپنے بنائے ہوئے موسیقی آلہ کے بارے میں کلثوم کا کہنا تھا ’اسے وادئ سندھ کی تہذیب میں ’بورندو‘ جبکہ اس کی ابتدائی شکل کو ہڑپہ تہذیب میں ’گھو گھو‘ کہا جاتا ہے۔ مٹی سے بنائے گئے اس آلے کا ساز پرندوں جیسا ہوتا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا ’آلہ بنانے سے پہلے میں نے پڑھا کہ آواز کو کیسے تخلیق دیا جائے گا اور کس طرح ہاتھوں سے سیٹی بجانے کے ساتھ ایک خالی بوتل میں پھونک مارنے سے آواز پیدا ہوسکتی ہے‘۔

ایک ماہر کے طور پر انہوں نے بتایا کہ ’میں نے پہلے یہ سیکھا کہ ووکل کورڈز کی مدد سے کیسے آواز کی تخلیق کی جاسکتی ہے، یہ بھی کہ اس آلہ کے اندر کیسے ہوا تقسیم ہوتی ہے اور کیسے آواز پیدا کی جاتی ہے‘۔

انہوں نے ٹیراکوٹا کی بنیادی اقسام ’سلپ کاسٹنگ‘ اور اوپن ماؤلڈ کاسٹنگ‘ بنائیں اور پھر آواز پر غور کیا۔ بعد ازاں ’شہنائی‘، ’بانسری‘، اور ’اوکیرینا‘ نامی قدیم مغربی موسیقی کے آلات کا مطالعہ کرنے کے بعد اس آلہ کی شکل کو مزید بہتر بنایا گیا.

ابتدا میں 'سرنا' کو صرف ایک ہی انداز میں بجانے کے بعد آواز پیدا کی جاسکتی تھی، اس غلطی کو دور کرنے کے لیے کلثوم نے کئی آلات کا مطالعہ کیا اور انہیں اپنے آلات میں شامل کیا۔

ان کا کہنا تھا ’میں مختلف سائز پر مشتمل گول، سیدھے، باقاعدہ اور بے قاعدہ اشکال کے آلات پر مسلسل آواز کا تجربہ کرتی رہتی ہوں‘۔

کلثوم کا کہنا تھا ’میں نے اوکیرینا کے قریب ترین سُر بنانے کے لیے ان اقسام میں موسیقی کے ایک خاص سر کو شامل کیا ہے‘۔

انہوں نے ایک بانسری بجانے والے سے بھی مشورہ کیا جس نے انہیں بنیادی سروں پر کام کرنے کی ہدایت کی۔

اس ہدایت پر عمل کرتے ہوئے کلثوم نے موسیقی کے آلات کی ایک سیریز تخلیق کی، جس کی دھن اوکیرینا کے مقابلے میں نہایت سادہ اور بجانے میں کافی آسان تھی۔

جبکہ ان کی اشکال پکڑنے کے ساتھ ساتھ سُر پیدا کرنے کے لیے بھی نہایت آسان ہیں۔

کلثوم معمار اور موسیقار قاسم ابراہیم کی نہایت شکر گزار ہیں جنہوں نے موسیقی سے متعلق تکنیکی مسائل پر ان کی مدد کی۔

کلثوم کے کام کا معیار ان کی پیشہ ورانہ مہارت اور فن کے جذبے کی عکاسی کرتا ہے۔ ان کے پاس انتہائی مطالعہ اور تحقیق کی بنیاد کے ساتھ نمونے بنانے کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے۔

انگریزی میں پڑھیں.


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔