پاکستان

ملک بھر میں پی آئی اے فلائٹ آپریشنز بند

کراچی میں نجکاری کےخلاف سیکیورٹی اہلکاروں اور مظاہرین میں تصادم، 2 ملازمین ہلاک
|

اسلام آباد، کراچی، لاہور: پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن (پی آئی اے) کی ممکنہ نجکاری کے خلاف کراچی میں احتجاج کے دوران ملازمین پر لاٹھی چارج کیا گیا جبکہ آنسو گیس اور ربڑ کی گولیاں بھی استعمال کی گئیں، جس سے 2 ملازمین ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے.

پی آئی اے کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے قومی ایئرلائن کی نجکاری کے خلاف ملک بھر میں احتجاج اور فلائٹ آپریشن روکنے کا اعلان کیا تھا.

کراچی میں احتجاج کے دوران پی آئی اے کے ملازمین کی ہلاکت کے بعد ملک کے مختلف شہروں میں فلائٹ سروس متاثر ہوئی.

سب سے پہلے کراچی ایئرپورٹ پر فضائی آپریشن بند ہوا، جس پر پی آئی اے ترجمان کی جانب سے کہا گیا کہ آپریشن وقتی طور پر متاثر ہوا ہے۔

کراچی کے بعد کوئٹہ ایئرپورٹ پر بھی فضائی آپریشن بند ہونے کی اطلاع موصول ہوئی جس کے بعد لاہور ایئر پورٹ پر بھی پی آئی اے کا فلائٹ آپریشن بند ہوگیا۔

بعد ازاں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے بے نظیر انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر بھی فضائی آپریشن بند ہونے کی اطلاعات موصول ہوئیں.

فضائی آپریشن بند ہونے سے مسافروں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

پی آئی اے کے ترجمان دانیال گیلانی کا کہنا تھا کہ کراچی ایئرپورٹ پر فضائی آپریشن جزوی طور پر بند ہوا، جسے فوری بحال کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

انہوں نے تصدیق کی کہ کراچی ایئرپورٹ پر 5 سے زائد پروازیں منسوخ ہوئیں جبکہ پروازوں کی منسوخی سے قبل مسافروں کو آگاہ کردیا گیا تھا۔

گذشتہ روز پی آئی اے کی تمام تنظیموں پر مشتمل جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے ادارے کی نجکاری کے خلاف بطور احتجاج فلائٹ آپریشن معطل کرنے کا اعلان کیا تھا.

اسلام آباد سمیت کراچی، لاہور اور پشاور میں قانون نافذ کرنے والوں اداروں نے کسی بھی ناخوشگوار صورتحال سے نمٹنے کے لیے انتظامات ایک رات قبل سے ہی سنبھال لیے تھے۔

منگل کی صبح کراچی میں پی آئی اے کے احتجاج کرنے والے ملازمین کی ریلی جب ہیڈ آفس سے ایئر پورٹ کی جانب روانہ ہوئی تو کارگو گیٹ پہنچنے پر پولیس کی جانب سے واٹر کینن کا استعمال کیا گیا اور مظاہرین کو پانی کے پریشر سے پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی گئی۔

پی آئی اے کے احتجاجی مظاہرین نے جناح ٹرمینل کی طرف پیش قدمی کی تو ان پر آنسو گیس کے شیل پھینکے گئے، پولیس اور رینجرز نے پی آئی اے ریلی کو ایئرپورٹ جانے کی اجازت نہیں دی تاہم مظاہرین نے جناح ٹرمینل کا گیٹ کھولنے کی کوشش کی، جس پر پولیس کے لاٹھی چارج پر احتجاجی مظاہرین کی جانب سے بھی پتھراؤ کیا گیا۔

آنسو گیس کے شیل لگنے سے متعدد افراد زخمی ہوئے جبکہ احتجاج میں شامل خواتین بھی شدید زخمی ہوئیں.

سیکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے مظاہرین کو روکنے کے لیے ربڑ کی گولیاں بھی چلائی گئیں.

ربڑ کی گولیاں لگنے سے زخمی ہونے والے 16 افراد کو ہسپتال منتقل کردیا گیا، ان زخمیوں میں سے 7 کو جناح ہسپتال، 5 کو نجی ہسپتال آغا خان اور 4 کو لیاقت نیشنل ہسپتال لے جایا گیا.

بعد ازاں زخمیوں میں سے 2 افراد ہلاک ہوگئے، عنایت رضا کو سینے میں گولیاں لگیں، انھیں طبی امداد کے لیے نجی ہسپتال منتقل کیا گیا تھا.

ملیر کے سینیئر پولیس افسر راؤ انوار نے ان کی ہلاکت کی تصدیق کی.

جناح ہسپتال کی ڈاکٹر سیمی جمالی نے بھی ایک شخص کی ہلاکت کی تصدیق کی، ہلاک ہونے والے شخص کا نام سلیم بتایا گیا جو گولی لگنے کے باعث زخمی ہوا تھا.

زخمی ہونے والوں میں ڈان نیوز کا کیمرہ مین بھی شامل ہے، جسے بازو میں ربڑ کی گولی لگی، کیمرہ میں کو فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا.

اس دوران رینجرز اور پولیس کی جانب سے میڈیا کے نمائندوں کے ساتھ ساتھ خواتین پر بھی لاٹھی چارج کیا گیا.

سیکیورٹی اداروں نے ملازمین کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے متعدد رہنماؤں کو بھی حراست میں لے لیا.

کراچی شرقی کی پولیس کے ڈی آئی جی کامران افضل نے فائرنگ کی تردید کی، ان کا کہنا تھا کہ گولیاں ہم نے نہیں چلائیں.

جبکہ ڈی آئی جی ایسٹ کا کہنا تھا کہ گولیوں کے خول ڈھونڈے کی کوشش کی جارہی ہے.

کامران افضل نے بتایا کہ انھیں مظاہرین پر کسی بھی قسم کی سختی نہ کرنے کا حکم ملا تھا.

انہوں نے میڈیا کے نمائندوں پر ہونے والے تشدد کی تحقیقات کی بھی یقین دہانی کروائی.

دوسری جانب رینجرز کے ترجمان نے بھی اعلامیہ جاری کیا، جس میں کہا گیا کہ رینجرز کے اہلکاروں نے جناح ٹرمنل پر ہونے والے احتجاج کے دوران فائرنگ نہیں کی.

تاہم جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے سربراہ سہیل بلوچ کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ مظاہرین پر فائرنگ رینجرز کی جانب سے کی گئی.

کراچی میں ملازمین کے احتجاج کے بعد ملتان میں بھی ایکشن کمیٹی نے احتجاج کیا اور وہاں موجود وزیراعظم نواز شریف کی تمام تصاویر پھاڑ دی گئیں.

علاوہ ازیں پشاور میں بھی ملازمین نے احتجاج شروع کر دیا.

پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کے ترجمان دانیال گیلانی کا کہنا تھا کہ معاملے کو مذاکرات سے حل کرنا چاہیے، کام نہ کرنے اور قانون کو ہاتھ میں لینے والوں سے سختی سے نمٹا جائے گا۔

قبل ازیں کراچی میں ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) ایئرپورٹ سیکیورٹی فورس (اے ایس ایف) میجر جنرل سہیل احمد خان نے ایئرپورٹ کا دورہ کیا تھا، اس موقع پر رینجرز حکام بھی موجود تھے۔

پی آئی اے ملازمین کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے آج صبح 7 بجے سے فلائٹ آپریشن معطل کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن صبح کے اوقات میں قومی ایئر لائن کی تمام پروازیں معمول کے مطابق روانہ ہوئیں۔

حکومت نے گذشتہ روز پی آئی اے پر لازمی سروسز ایکٹ نافذ کرکے ڈیوٹی پر نہ پہنچنے والے ملازمین کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا تھا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں کی گرفتاری کے لیے فہرستیں بھی تیار کرلی گئی ہیں۔

یاد رہے کہ قومی اسمبلی میں گذشتہ ہفتے قبل 21 جنوری کو 6 بل پیش ہوئے تھے جن میں پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن (پی آئی اے) کے حوالے سے بھی ایک بل شامل تھا جس میں پی آئی اے کو پبلک لمیٹڈ کمپنی میں تبدیل کرنے کا بل بھی شامل تھا، اس بل کے تحت پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کارپوریشن کو پاکستان انٹرنیشل ایئر لائن کمپنی لمیٹڈ میں تبدیل کیا جائے گا.

یہ بل سامنے آتے ہی ملک بھر میں پی آئی اے کے ملازمین کی تنظیموں نے احتجاج شروع کر دیا، جس سے پی آئی اے کے امور متاثر ہونے لگے تھے.

منگل کی صبح فضائی آپریشن معطل کرنے کی دھمکی کے بعد حکومت نے 1952 کا لازمی سروسز ایکٹ نافذ کر دیا ، جس کے تحت تمام یونینز تحلیل ہو گئیں جبکہ اب ہڑتال یا احتجاج کرنے والے ملازمین ملازمت سے فارغ کر دیئے جائیں گے.

دوسری جانب لازمی سروسز ایکٹ کے نفاذ کو ملازمین نے مسترد کرتے ہوئے ایکٹ کے خلاف سپریم کورٹ میں جانے کا بھی اعلان کیا.

جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے چیئر مین سہیل بلوچ کا کہنا تھا کہ احتجاج کرنا ان کا حق ہے اور وہ لاٹھی چارج اور گرفتاریوں کے لیے تیار ہیں۔

جبکہ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید کا کہنا تھا کہ ہڑتال کرنے والے قومی ایئر لائن کو زیرو کرنا چاہتے ہیں، ملازمین کا روزگار داؤ پر لگانے والے جلد انجام کو پہنچیں گے ۔

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے کہا کہ احتجاج کرنے والے چند لوگ پی آئی اے ملازمین کا روزگار اپنے ذاتی مفادات کے لیے داؤ پر لگا رہے ہیں.


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔