تیرا سب کچھ میرے مفاد پر قربان
اورنج ٹرین منصوبے پر سڑکوں پر ہونے والی سیاست کا فیصلہ اب عدالتوں میں ہوگا، کیونکہ لاہور ہائیکورٹ نے بھی بے معنی اعتراضات کو چھوڑتے ہوئے تاریخی عمارات جیسے اہم ترین مسئلے پر حکم امتناعی جاری کر دیا ہے۔
یہی وہ بات تھی جو میں نے ایک ریڈیو پروگرام میں اس تحریک کی لیڈر مریم حسین کو سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ اپنی تحریک کی بنیاد اورنج لائن منصوبے پر اٹھنے والے ہر اعتراض پر رکھنے کے بجائے اس کا رخ کسی ایک جانب رکھیں اور پوری قوت سے رکھیں، مگر محترمہ نہ تو اپنی تحریک کو محض تاریخی عمارات تک محدود رکھنے پر تیار تھیں، نہ ہی سڑکوں کے بجائے عدالتوں میں جانا چاہتی تھیں۔ چلیں، دیر آید درست آید کے مصداق امید ہے کہ اب یہ بیل منڈھے چڑھ ہی جائے گی۔
1990 کی دہائی میں جب نواز شریف نے موٹروے بنانے کا آغاز کیا تھا تو مجھ جیسے کتنے ہی 'لہوریے' تھے جنہوں نے اس کی سر توڑ مخالفت کی تھی۔ دلیل یہ تھی کہ جی ٹی روڈ کو بڑا اور بہتر کرو، ریلوے کے بندوبست کو صحیح کرو۔ کچھ احباب حساب کتاب لگا کر یہ بھی بتاتے تھے کہ موٹروے کی نسبت جی ٹی روڈ اور ریلوے کو بہتر کرنے پر موٹروے پر لگنے والی کثیر رقم کے مقابلے میں آدھے پیسوں سے ہی کام چل جائے گا۔
یہ بھی کہا جاتا تھا کہ اسکولوں اور ہسپتالوں پر رقومات خرچ کرنے کے بجائے سڑکوں اور پلوں پر رقومات نہیں خرچ کرنی چاہیئں۔ مگر موٹروے بنتا گیا اور نواز شریف کی سیاست کو اس سے بیش بہا سیاسی فائدے بھی ہوئے۔
پڑھیے: میٹرو بس، اورینج ٹرین اور بیوقوف عوام
موٹروے پر سفر کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ اس سڑک نے لاتعداد پنڈوں اور سرگودھا، فیصل آباد جیسے اچھے بھلے شہروں کا اسلام آباد و لاہور تک جو سفر آسان کیا ہے، اس کا فائدہ نرے امیروں کو نہیں بلکہ عام آدمی خصوصاً متوسط طبقے و ہنرمندوں کو بھی ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے 9 سالہ فوجی دور میں لاکھ مخالفتوں اور ق لیگ کی تخلیق کے باوجود نواز شریف کی حمایت جاری رہنے کی ایک بڑی وجہ بھی یہی تھی۔
ذرا اپنی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ بھٹو صاحب کے دور میں جن کچی بستیوں کو لاہور و دیگر شہروں میں بسایا گیا تھا، انہی میں سے بڑی تعداد میں پیپلز پارٹی کو ضیاء آمریت کے دوران کارکن بھی ملتے رہے تھے۔ ضیاء شاہی کی لاکھ مخالفتوں کے باوجود 10 اپریل 1986 کو جب بے نظیر بھٹو لاہور ایئر پورٹ پر اتریں، تو ضیاء الحق کو اپنی حیثیت کا پتہ چل گیا تھا۔
سیاستدانوں کا ترقیاتی منصوبوں کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔ خود مشرف کے فوجی دور میں کراچی میں دو میئر آئے اور دونوں نے ترقیاتی کام کرنے کی کوششیں کیں۔ تاہم جماعت اسلامی کے میئر کو 17 ویں ترمیم کی حمایت اور ایم کیو ایم کے میئر کو 12 مئی کا اندوہناک قتلِ عام کھا گیا۔
آج بھی لوگ سرگودھا کے ملک فیروز خان نون کو یاد کرتے ہیں جنہوں نے 8 ستمبر 1958 کو گہرے سمندر سے منسلک تاریخی شہر و بندرگاہ گوادر خرید کر پاکستان میں شامل کروایا تھا۔ 1954 میں ایک امریکی سروے میں گوادر بندرگاہ کی اہمیت کے بارے میں انکشاف کیا گیا تھا، اور اس کے بعد فیروز خان نون کے دور میں گوادر کو عمان سے خریدا گیا۔
افسوس صد افسوس، جنرل ایوب خان اور اسکندر مرزا کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے انتخابات سے قبل فیروز خان نون کی حکومت کو توڑ کر 7 اکتوبر 1958 کو مارشل لاء لگا دیا گیا اور بعد ازاں فوجی آمر ایوب خان نے اس سیاستدان کو اپنے کالے قانون 'ایبڈو' کے ذریعے سیاست سے بے دخل کر ڈالا۔ غور کرنے کی بات تو یہ ہے کہ سیاستدان ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے اپنی سیاست کو توانا کرتے رہے اور ان کے مخالفین بشمول فوجی آمر ان منصوبوں کے خلاف پروپیگنڈے کرتے رہے۔ جہاں جہاں پروپیگنڈا کامیاب ہوا، وہاں وہاں ترقیاتی منصوبے رکے، اور ہر ترقیاتی منصوبے کے کھٹائی میں پڑنے سے ملک ریورس گیئر میں جاتا رہا۔
عوامی تحفظات کے تحت کسی ترقیاتی منصوبے کی حمایت یا مخالفت ایک اہم سوال ہے، اور یقیناً عوامی امنگوں کے خلاف کوئی منصوبہ ان پر تھوپنا نہیں چاہیے۔ مگر سیاسی ترجیحات کی بنیاد یا سیاسی عمل کی مخالفت پر کسی ترقیاتی منصوبے کی حمایت و مخالفت قابل تحسین نہیں بلکہ قابلِ مذمت ہے۔
مزید پڑھیے: کچھ نئی 'جنگلہ بس' کے بارے میں
ماضی میں کالا باغ ڈیم کی حمایت و مخالفت نے پاکستان اور پاکستانیوں کو جس قدر نقصان پہنچایا ہے، وہ ہماری تاریخ کے خوفناک تجربوں میں سے ایک ہے۔ چاہے بجلی کی قلت ہو، یا بجلی کی قیمت میں ہوشربا اضافہ، چاہے سیلابی صورتحال پیدا ہوجائے، یا بارشوں کی کمی کی وجہ سے زراعت کے لیے پانی دستیاب نہ ہو، ان سب کا سہرا بڑے ڈیموں کی تعمیر، خصوصاً کالاباغ ڈیم کے منصوبے کو سیاست کی نذر کر دینے کے سر ہے۔
1951 میں لندن پلٹ مولانا محمد علی قصوری نے اپنی کتاب "مشاہدات و کابل ویاغستان" میں پہلی بار کالا باغ کے مقام کو ڈیم کے لیے انتہائی مناسب قرار دیا تھا۔ وہ خود لندن سے الیکٹریکل انجینئرنگ پڑھ کر آئے تھے اور فاٹا سے واپسی پر انہوں نے خود اس مقام کا مشاہدہ کیا تھا۔
حکومت پاکستان نے 1950 کی دہائی میں سروے بھی کروائے مگر یہ منصوبہ بوجوہ کھٹائی میں پڑتا رہا۔ ضیاء، مشرف اور قوم پرستوں نے اس مسئلے پر سیاست کھیلی۔ کہا گیا کہ کالاباغ ڈیم ایک صوبے کی باقی صوبوں کو بنجر کرنے کی 'سازش' ہے۔ وہ 'سازش' تو کیا بنجر کرتی، اس منصوبے کی عدم تکمیل سے کبھی سیلاب تو کبھی پانی کی قلت نے ویسے ہی پریشان کر رکھا ہے۔
یہ درست ہے کہ جب بھرپور مشاورت کے بعد کوئی منصوبہ نہیں بنتا تو اس پر اسٹیک ہولڈروں کی طرف سے اعتراضات بجا طور پر اٹھائے جاتے ہیں۔ مگر جب منتخب قیادتوں کو یہ یقین ہی نہ ہو کہ ان کی حکومتیں اپنی آئینی میعاد پوری کرسکیں گی، تو پھر وہ ہر کام جلد از جلد کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ ہماری تاریخ گواہ ہے کہ 2008 تک لیاقت علی خان سے لے کر نوازشریف کے دوسرے دور تک ماسوائے ذوالفقار علی بھٹو، کسی وزیرِ اعظم کو آئینی مدت گزارنے کا موقع دیا ہی نہ گیا۔
سول و ملٹری بیوروکریسی کے ہرکارے ہر دو ڈھائی سال بعد حکومتوں کو توڑنے کے کھیل میں رجھے رہے۔ بھٹو حکومت کو جیسے ختم کیا گیا وہ بھی سب کو یاد ہے البتہ 2008 کے بعد سے پاکستان میں جمہوری تسلسل دھرنوں کے باوجود تاحال جاری ہے جو ایک خوش آئند امر ہے۔
پڑھیے: ایک نغمہ لاہور کی یاد میں
تاہم 2018 کے بعد اس جمہوری تسلسل کو وہ مضبوطی نصیب ہوگی جو ایک آزاد و جمہوری عہد کا پیش خیمہ ہوتی ہے اور اس کے صدقے ملک و عوام ترقی کرتے ہیں۔ بچے کی پیدائش سے لے کر کسی ترقیاتی منصوبے پر عملدرآمد تک ماں اور دھرتی کے باسیوں کو کچھ تکالیف سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔
اس تکلیف کو کم کرنے کی کوشش کرنا اک بہتر قدم ہوتا ہے، تاہم اس تکلیف کی آڑ میں اس منصوبے ہی کو ختم کرنے کی مہمیں چلانا قابل تحسین نہیں ہوتا۔ جیسے آج کل پرویز الہٰی اور شیخ رشید وغیرہ میٹرو اور اورنج ٹرین کی مخالفت کو اوڑھنا بچھونا بنائے بیٹھے ہیں۔ یہ اسی گندی سیاست کا تسلسل ہے جو فوجی آمریتوں کی پیروی کے سوا کچھ نہیں۔
اگر موٹروے یا میٹرو نہ بنتے تو کیا اس کثیر رقم سے لاہور کے سرکاری اسکول و ہسپتال بہتر ہوجانے تھے؟ یا پھر وہ پیسہ بھی کہیں اور لگ جانا تھا؟ حیران کن بات تو اورنج ٹرین کے مخالفوں کا وہ مطالبہ ہے جس کے تحت وہ اورنج ٹرین کے راستے کو زیرِ زمین کروانا چاہتے ہیں۔ ایک طرف یہ کہا جا رہا ہے کہ خطیر رقم لگانے کا کوئی جواز نہیں اور اس رقم سے اسکول، ہسپتال بنانے چاہیئں، تو دوسری طرف اک ایسا حل پیش کیا جا رہا ہے جس میں پہلے سے چار گنا رقم خرچ ہوگی۔
یہ محض مخالفت برائے مخالفت کی روایت ہے جس میں لوگوں کے مفاد کے بجائے ذاتی مفاد مقدم رہتا ہے۔ البتہ میگا منصوبوں کا معاملہ غور طلب ضرور ہے۔ آخر حزبِ اختلاف والے یہ مطالبہ کیوں نہیں کرتے کہ جن منصوبوں پر بھی 50 کروڑ سے زیادہ رقم لگے، انہیں صوبائی اسمبلیوں سے منظور کروایا جائے اور جن منصوبوں پر اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں ان کے بارے میں قائد حزب اختلاف کی منظوری بھی لازم ہو۔
ان منصوبوں پر صوبائی اسمبلیوں کی قائمہ کمیٹیاں اور قومی اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹیاں بحث کریں جن میں تمام جماعتوں کے نمائندے بیٹھتے ہیں۔ مگر ایسے مطالبات سے جمہوریت اور منتخب قیادتیں مضبوط اور جمہوری تسلسل پائیدار ہوگا اس لیے ان سے بوجوہ اجتناب برتا جاتا ہے۔
اگر ترقیاتی منصوبوں کی مخالفت میرٹ کے بجائے محض اس لیے کی جائے کہ وہ کون شروع کر رہا ہے، تو پھر اس کا انجام تحریکِ خلافت و ہجرت جیسا ہوتا ہے اور بھانت بھانت کے لوگ اس مخالفت میں منفعت سمیٹنے نکل آتے ہیں۔
اس سے کچھ گروہوں کو وقتی فائدے تو مل جاتے ہیں مگر مجموعی طور پر عوام اور ملک گھاٹے میں رہتے ہیں۔ 20 سال بعد پھر ایک سرد آہ نکلتی ہے کہ کاش اس وقت وہ منصوبہ مکمل کر لیا ہوتا تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔
دور کیوں جاتے ہیں، بجلی کا مسئلہ ہی دیکھ لیں۔ اور کسی مثال کی ضرورت ہے؟
عامر ریاض لاہور میں رہتے ہیں۔ تعلیم، بائیں بازو کی سیاست، تاریخ ہند و پنجاب ان کے خصوصی موضوعات ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔