مولانا عزیز کا خفیہ اداروں سے مذاکرات کادعویٰ
اسلام آباد: لال مسجد کے معزول خطیب مولانا عبد العزیز نے الزام عائد کیا ہے کہ ملک کی اعلیٰ ترین خفیہ ایجنسی کا ایک عہدیدار ان کے خلاف 'سازش' کر رہا تھا جبکہ دیگر حکام ان سے رابطے میں تھے تاکہ دونوں اطراف کے اختلافات کو ختم کیا جاسکے۔
لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے فیس بک پیج پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ مولانا عبدالعزیز نے انٹر سروسز انٹیلی جنس ایجنسی (آئی ایس آئی) کے ایک افسر سے مذاکرات کیے.
ساتھ ہی انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اُس وقت جبکہ مذاکرات درست سمت میں جا رہے تھے تو ایک اور افسر نے ان کو 'بگاڑنے' کی کوشش کی.
مولانا عبد العزیز کے مطابق لال مسجد کے نمازیوں میں سے ایک نے انہیں بتایا کہ آئی ایس آئی کا ایک بریگیڈیئر (جو دوسرے فرقے سے تعلق رکھتا ہے) ان کے خلاف سازشیں کر رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں جانتا ہوں کہ وہ میرے خلاف جعلی ویڈیوز بنا رہے ہیں جس میں مجھے بھتہ لینے والا دکھایا جائے گا۔
مولانا نے دعویٰ کیا کہ خفیہ ادارے اپنے رویئے کی وجہ سے ملک میں شدت پسندی کو پروان چڑھا رہے ہیں۔
سابق خطیب لال مسجد نے ویڈیو میں کہا کہ حالیہ دنوں میں ایک میجر ان سے ملاقات کے لیے آئے تاکہ ایک دوسرے کو سمجھا جا سکے۔
دوسری جانب آئی ایس آئی کے ایک ترجمان نے ڈان سے گفتگو میں مولانا عبد العزیز کے دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے اسے 'پروپیگنڈا' قرار دیا اور کہا کہ خفیہ ادارے کے کسی بھی میجر نے ان سے ملاقات نہیں کی.
ترجمان کا کہنا تھا کہ مولانا عبد العزیز کا ماضی جعلی کہانیوں پر مبنی ہے جبکہ خفیہ اداروں کے کسی بھی شخص کا ان سے رابطہ نہیں ہے۔
ڈان اخبار نے آئی ایس آئی کے مذکورہ ترجمان کا نام اور عہدہ ظاہر نہیں کیا۔
اسلام آباد کی مقامی انتظامیہ کے ایک افسر کی جانب سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا گیا کہ اسلام آباد پولیس اور مقامی انتظامیہ نے مولانا عبد العزیز سے ملاقات کی تھی تاکہ وہ عدالت سے ضمانت قبل از گرفتاری کروا لیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ عجیب بات ہے کہ ہم ان کو شہر کے مختلف علاقوں میں گھومتا ہوا دیکھتے ہیں اور کبھی انھیں ریڑھیوں سے پھل خریدتے ہوئے بھی دیکھا جاتا ہے.
مولانا عبد العزیز کی جانب سے جاری کی گئی ویڈیو میں مختلف فرقہ وارانہ جملے بھی کہے گئے ہیں۔
ان کا دعویٰ ہے کہ وہ لوگ جن کے نام میں شاہ، حیدری اور شہیدی کے سابقے لگے ہوتے ہیں وہی ان کے والد سمیت دیگر اہلسنت علماء کے قتل میں ملوث ہیں۔
انہوں نے ویڈیو میں کہا کہ پہلے میرے خلاف ایک جھوٹا مقدمہ درج کیا گیا اور اب وہ چاہتے ہیں کہ میں اس میں ضمانت حاصل کروں، میں استخارہ کر چکا ہوں جس کے مطابق میں ابھی ضمانت نہیں لے رہا۔
واضح رہے کہ مولانا عبد العزیز کی ضمانت کا معاملہ اُس وقت سامنے آیا کہ جب پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے سینیٹ میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے خلاف ان کے بیان پر تحریک استحقاق جمع کروائی، جس میں وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ مولانا عبد العزیز کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں ہے، لہذا کس مقدمے میں ان کے خلاف کارروائی کی جائے، اس بیان کے بعد فرحت اللہ بابر نے سینیٹ میں مختلف دستاویزات پیش کیں جس میں 11 ماہ قبل اسلام آباد ہائی کورٹ سے جاری ہونے والا گرفتاری کا وارنٹ بھی شامل تھا۔
ویڈیو کے جاری ہونے پر ڈان سے گفتگو میں فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ یہ مختلف قوانین کی خلاف ورزی ہے، سوال یہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کہاں ہے۔
فرحت اللہ بابر نے کہا کہ اس ویڈیو میں نفرت انگیز تقریر، عسکریت پسندی کو ہوا دینے، فرقہ واریت اور دہشت گردی پر اکسانے سمیت ریاست کو چیلنج کیا گیا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیر داخلہ سمیت حکومت اس میں شریک ہے یا وہ ایک شخص سے خوف کھا رہے ہیں۔
یہ خبر 29 جنوری 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔