'انسانیت' کا شکار ایک 'حیوان'
اپنے کسی پیارے کو کھونا، اور پھر اس کی سزا پانا تصور کریں۔
زنجیروں میں جکڑے جانا اور چار طویل سالوں تک چل پھر نہ سکنا تصور کریں۔
اسلام آباد کے مرغزار چڑیا گھر کے واحد ہاتھی کاوَن کی زندگی کی یہی تلخ حقیقت ہے۔
1985 میں سری لنکن حکومت نے کاوَن پاکستان کو تحفتاً دیا تھا۔ اس کی اکلوتی ساتھی 'سہیلی' کی 2012 میں موت ہوگئی، جس کے بعد سے وہ اکیلا ہے، زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے، اور تقریباً نظرانداز کر دیا گیا ہے۔
ہاتھیوں کو ان کے مضبوط خاندانی رشتوں کے لیے جانا جاتا ہے۔ یہ بات سمجھنے کے لیے آپ کا ماہرِ جنگلی حیات ہونا ضروری نہیں کہ ہاتھیوں کو گروہ کی صورت میں اور بڑے انکلوژرز میں رکھنا چاہیے۔ میری سمجھ سے باہر ہے کہ آخر کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کیوں چار سال سے کاوَن کے لیے کوئی ساتھی نہیں لائی ہے۔
ویڈیو: کراچی: چڑیا گھر میں گرمی کی شدت سے 7 جانور ہلاک
جب ذمہ دار شہری کاوَن کی کہانی دنیا کے سامنے لائے، تب ہی سی ڈی اے نے عالمی دباؤ کے تحت ستمبر 2015 میں اس کی زنجیریں کھولیں۔
اس کی زنجیریں کھولے جانے کے بعد میں وہاں گئی تو کاوَن چڑیا گھر کے تالاب کے پاس کھڑا کیلے کھا رہا تھا۔ اس وقت وہ خوش نظر آ رہا تھا، جو وہ کئی سالوں سے نہیں ہوا تھا۔
مگر افسوس کی بات ہے کہ یہ خوشی زیادہ دنوں تک قائم نہیں رہی، اور کاوَن کو واپس زنجیروں میں جکڑ دیا گیا ہے۔
چڑیا گھر کے ڈائریکٹر کے مطابق کاوَن کے انکلوژر کو تعمیرِ نو کی ضرورت ہے۔ مگر یہ سمجھ نہیں آتا کہ تب تک کے لیے اسے زنجیروں میں جکڑنے کے بجائے کسی کھلی جگہ میں کیوں نہیں بھیج دیا جاتا؟ ایک جانور کو بار بار ذہنی اذیت کیوں پہنچائی جا رہی ہے؟
کیونکہ اس کے چاروں پاؤں زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں، اس لیے کاوَن کئی گھنٹوں تک ہلنے سے بھی قاصر رہتا ہے۔ اس سے اس کے جوڑوں اور پیروں پر دباؤ پڑتا ہے جس سے وہ زخمی ہو سکتا ہے۔ ہاتھیوں میں پیر کا زخم جان لیوا ہوسکتا ہے کیونکہ اگر وہ گر جائیں، تو ان کے جسم کا وزن ان کے اندرونی اعضاء کو پیس کر رکھ دیتا ہے۔
چڑیا گھر کے ڈائریکٹر کے مطابق کاوَن کو زنجیروں میں رکھنے کی ایک اور وجہ اس کا 'حالتِ مست' میں ہونا ہے، جب نر ہاتھی ہارمونل تبدیلیوں سے گزرتے ہیں اور جارح ہوجاتے ہیں۔ مگر زنجیروں میں جکڑنے سے تو اس کی تکلیف میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔
جب پاکستان وائلڈ لائف فاؤنڈیشن کے سربراہ صفوان احمد نے کاوَن کے انکلوژر کا دورہ کیا، تو انہوں نے پایا کہ ہاتھی کو کم غذائیت والی خوراک دی جا رہی تھی، اور وہ سماجی میل جول، مناسب جگہ اور بہتر ماحول نہ ہونے کی وجہ سے رویے کے مسائل کا شکار ہے۔
پڑھیے: بنگال ٹائیگر کے بعد چڑیا گھر کا مگر مچھ بھی ہلاک
اس بات پر چڑیا گھر کے ڈائریکٹر کے پاس اپنے دفاع میں کہنے کے لیے کچھ نہیں تھا۔
زنجیروں میں جکڑے جانے کے بعد میں کئی دفعہ کاوَن کو دیکھنے گئی ہوں، اور ہر دفعہ میں نے اسے اپنے چھوٹے سے انکلوژر کے اندر کھڑے ہوئے اپنا سر دائیں سے بائیں ہلاتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس رویے کو weaving کہتے ہیں اور ہاتھی ایسا تب کرتے ہیں جب وہ شدید ذہنی تناؤ کا شکار ہوں۔
ہاتھیوں کی یادداشت زبردست ہوتی ہے۔ اس بات کا بہت امکان ہے کہ وہ خود کے ساتھ ہونے والے سلوک سے اچھی طرح آگاہ ہے۔ اور یہ تصور بھی افسوسناک ہے.
میں جانوروں سے محبت کرتی ہوں اور چاہتی ہوں کہ پاکستان میں چڑیا گھروں کو فروغ ملے۔ پر اگر سالہا سال بعد بھی ہم جانوروں کو ایک اچھا ماحول فراہم نہیں کر سکتے، تو میں یہی چاہوں گی کہ ملک میں سے چڑیا گھروں کا خاتمہ ہی کر دیا جائے تاکہ کم از کم انہیں ہماری تفریح کے لیے ایسے سلوک کا سامنا تو نہ کرنا پڑے۔
مہرین کندان زیبسٹ یونیورسٹی اسلام آباد سے میڈیا سائنسز میں بیچلرز کر رہی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔