پاکستان

ایگزیکٹ کیس پراسرار ہو گیا

عدالت میں جلد حتمی فردِ جرم پیش کرنے کا اعلان کرنے کے بعد وکیلِ استغاثہ پراسرار انداز میں مقدمے سے علیحدہ ہوگئے ہیں.

ایگزیکٹ کے خلاف مقدمے اب تک تو استغاثہ نے اس مقدمے میں صرف کامیابیاں ہی سمیٹی ہیں لیکن اب اس کیس میں پہلی رکاوٹ سامنے آ گئی ہے اور آنے والے چند دنوں میں ممکنہ طور پر مزید رکاوٹیں بھی سامنے آ سکتی ہیں۔

اس کیس میں ضمانت کی 9 درخواستیں مسترد کی گئیں اور اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 کے تحت مثال قائم کرتے ہوئے ایگزیکٹ کے اثاثے منجمد کیے گئے۔

22 دسمبر کو سندھ ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ، جس میں چیف جسٹس بھی شامل تھے، نے ایگزیکٹ کی عمارت کو فارنزک تحقیقات کے لیے سیل کیے جانے اور ایگزیکٹ اور مرکزی ملزم کے اثاثے اور بینک اکاؤنٹ منجمد کیے جانے کے خلاف دائر دو درخواستوں کو خارج کر دیا۔

استغاثہ کے مرکزی کردار ایک نوجوان وکیل زاہد جمیل تھے، جن کا بحیثیتِ سرکاری وکیل یہ پہلا مقدمہ ہے۔

انہوں نے انتہائی جوش و جذبے کے ساتھ مقدمے کی پیروی کی اور وکیلِ دفاع کی جانب سے دائر کی گئی تمام اپیلوں کے مسترد ہونے پر عدالت میں موجود تمام مبصرین اور شاید جج صاحبان اس نوجوان وکیل سے متاثر نظر آئے۔ اتوار کی رات ایک غیر معمولی بیان میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے ان کی کوششوں کو "انتھک اور ثابت قدم" قرار دیا۔

11 جنوری کو زاہد جمیل نے عدالت کو بتایا کہ ان کی ٹیم اس ماہ کے اختتام، یا زیادہ سے زیادہ فروری کے وسط تک حتمی فردِ جرم پیش کرنے اور ٹرائل کی شروعات کرنے کے لیے تیار ہوگی۔

یہ وہ بڑا لمحہ ہوتا جس کا سب کو انتظار تھا۔ ملزم کے خلاف ثبوت عدالت میں پیش کیے جاتے اور ٹرائل جلد سے جلد شروع ہوجاتا۔

مگر پھر اچانک 18 جنوری کو انہوں نے خود کو مقدمے سے علیحدہ کر لیا۔

اپنے استعفیٰ میں انہوں نے کوئی ٹھوس وجوہات بیان نہیں کیں، اور صرف اتنا لکھا ہے کہ "ایسے حالات درپیش ہیں" جن کی وجہ سے وہ اس مقدمے سے مزید جڑے نہیں رہ سکتے۔ خط میں انہوں نے کہا کہ اگر وہ مزید عرصہ اس مقدمے کے ساتھ رہے، تو ان کا "پیشہ وارانہ رویہ متاثر ہوگا۔" انہوں نے خط کے اختتام میں لکھا کہ انہوں نے یہ قدم انتہائی مایوسی کے ساتھ اٹھایا ہے۔

استعفے کی وجوہات کیا ہوسکتی ہیں؟

ڈان سے بات کرتے ہوئے دفاعی وکلاء میں سے ایک نے کہا کہ "استغاثہ کی ٹیم کے پاس کوئی ثبوت موجود نہیں ہیں۔"

زاہد جمیل کے مخالفین میں سے چند نے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے یوٹیوب پر ایک بے نام ویڈیو جاری کی ہے، جو کسی ٹی وی پیکج کی طرح اسکرپٹڈ ہے، مگر اس پر کسی چینل کا لوگو موجود نہیں۔ ویڈیو میں زاہد جمیل پر الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے جتنا عرصہ ہو سکے "تاخیری حربے" استعمال کر کے ایف آئی اے کو "تنہا" چھوڑ دیا ہے۔

پیکج میں انہیں نازیبا الفاظ سے پکارا گیا ہے جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایگزیکٹ سے متعلق ایک اور مقدمے میں ضمانت منظور کرنے کے فیصلے کی تعریف کی ہے، اور ملزم کو کمرہ عدالت سے پھولوں کی پتیوں کی بارش کے درمیان نکلتا ہوا دکھایا گیا ہے۔

پاکستان بِز نامی ایک ویب سائٹ پر ایک بلاگ میں، جسے دوسری ویب سائٹس پر بھی شائع کیا گیا ہے، ان پر ایسے ہی الزامات عائد کیے گئے ہیں جبکہ ان پر "بھاری فیس لینے" کا الزام بھی لگایا گیا ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ زاہد جمیل بغیر کسی معاوضے کے کام کر رہے تھے۔ اور اگر وہ واقعی "تاخیری حربے" استعمال کر رہے تھے، تو ان کی ٹیم کس طرح دفاع کی جانب سے دائر کی گئی تمام اپیلیں جیتنے میں کامیاب رہی؟

ایف آئی اے میں موجود ایک ذریعے کا کہنا ہے کہ زاہد جمیل نے "ذاتی وجوہات" کی بناء پر استعفیٰ دیا ہے تاکہ وہ خاندانی ذمہ داریاں نبھا سکیں۔

مگر ان کے استعفے کا خط کسی اور جانب اشارہ کرتا ہے جب وہ یہ کہتے ہیں کہ استغاثہ جاری رکھنے پر میرا "پیشہ وارانہ رویہ" متاثر ہوگا۔

جب کہ اس میں کسی بھی ذاتی وجہ کا ذکر موجود نہیں ہے۔

زاہد جمیل نے خود بھی عدالت میں دیے گئے بیان کے علاوہ کچھ بھی بتانے سے انکار کر دیا ہے، اور اسے وکیل اور مؤکل کے درمیان کا معاملہ قرار دیا ہے۔ مگر وہ اس بات کی تصدیق ضرور کرتے ہیں کہ تفتیش ختم ہوچکی تھی اور استغاثہ اب اپنا کام شروع کرنے کے لیے تیار تھا۔

"ہم حتمی چالان دائر کرنے کی پوزیشن میں آ گئے ہیں۔ ٹیم نے انتہائی تھوڑے وقت میں یہ کام مکمل کیا ہے۔"

وہ ایف آئی اے کی فارنزک ٹیم کو بھی "زبردست کام" کرنے کا کریڈٹ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ "جس طرح فارنزک ماہرین یہ تمام معلومات اکٹھی کر رہے ہیں، یہ ملک کے لیے فخر کی بات ہے۔"

وہ کن معلومات کی بات کر رہے ہیں؟

زاہد جمیل اپنا مقدمہ اس مواد کی بنیاد پر قائم کر رہے تھے جو ایگزیکٹ کے سرورز سے برآمد کیا گیا۔

وہاں کام کرنے والے لوگوں کے مطابق کمپنی کے آفس میں سخت مانیٹرنگ کی جاتی تھی، فون کالز ریکارڈ کی جاتیں، ملازمین کی نقل و حرکت اور ان کی آپس میں بات چیت پر نظر رکھی جاتی، وغیرہ۔ یہ تمام مواد جو وہاں کے سرورز اور ہارڈ ڈسکس میں محفوظ تھا، ایف آئی اے کی جانب سے سیل کر دیا گیا اور اسے شاملِ تفتیش کر لیا گیا۔

اس میں سے کچھ مواد درخواستِ ضمانت کی سماعتوں کے دوران عدالت میں پیش بھی کیا گیا تھا، اور اس نے ججز کی جانب سے درخواستِ ضمانت مسترد کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ عدالت کے آڈیو سسٹم پر چار ٹیلی فون کالز چلائی گئی تھیں، جو ایگزیکٹ کے دفاتر سے کی گئیں، جن میں کمپنی کے ملازمین خود کو دیگر ممالک کا سرکاری افسر ظاہر کر کے لوگوں سے گفتگو کیا کرتے۔

یہ کالز ان لوگوں کو کی گئی تھیں جنہوں نے وہ جعلی ڈگریاں خریدی تھیں جنہیں فروخت کرنے کا ایگزیکٹ پر الزام ہے۔

کال کرنے والے افراد، جن میں سے کچھ حراست میں ہیں اور تفتیش کاروں سے تعاون کر رہے ہیں، کو فون کی دوسری جانب موجود شخص پر دباؤ ڈالتے، ہراساں کرتے، اور گمراہ کرتے سنا جا سکتا ہے تاکہ وہ اپنی ڈگری کے نئے سرٹیفیکیٹ کے لیے اضافی ادائیگی کریں ورنہ ان کی شکایت ان کے باسز یا ملکی حکام کو کر دی جائے گی۔

مگر استغاثہ کو آگے بڑھانے کے لیے تفتیش کاروں کو ٹھوس شواہد کی ضرورت تھی۔ صرف یہ کافی نہیں تھا کہ کمپنی کی عمارت میں مجرمانہ سرگرمیاں جاری تھیں۔

جس الزام کے تحت ملزمان کو حراست میں رکھا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ "انہوں نے منظم انداز میں مسلسل کئی مختلف مواقع پر یہ کام انجام دیے" اور ایک زبردست فراڈ کیا جس سے تفتیش کاروں کے اندازے کے مطابق 2 لاکھ سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے ہیں۔

ٹیپ ریکارڈنگ میں جو گفتگو سنائی دیتی ہے، اسے ایک منظم جرم کا حصہ ثابت کرنے کے لیے استغاثہ کو ٹھوس شواہد درکار تھے، ایک ایسی دستاویز جس میں شعیب شیخ کو فون پر ہونے والی گفتگو سے براہِ راست جوڑا جا سکے۔

تفتیش کی براہِ راست معلومات رکھنے والے ایک ذریعے کا کہنا ہے کہ تفتیش کاروں کو یہ ٹھوس ثبوت مل گیا تھا، جس کی بنا پر جمیل نے عدالت کو بتایا کہ وہ مہینے کے اختتام تک حتمی الزامات تیار کر لیں گے۔ اور یہی وہ موقع ہے جب کچھ ایسا ہوا کہ جمیل نے استعفیٰ دیا۔

کیا ایسا کوئی ٹھوس ثبوت موجود ہے جو مرکزی ملزم کو جرم میں شریک ثابت کر سکے؟ اگر ہے، تو وہ فارنزک ثبوت ہی ہوگا۔

اور اگر ہاں، تو کہیں ایسا تو نہیں کہ ان ثبوتوں کی دریافت پر طاقتور حلقوں نے ممکنہ طور پر اہم ثبوتوں کو دفن کر کے استغاثہ کے مرحلے کو دھیما کرنے کے لیے تفتیش کاروں یا استغاثہ کی ٹیم پر نرم انداز میں دباؤ ڈالا ہو؟ ہم یہ جلد ہی جان جائیں گے۔

ایف آئی اے کا دعویٰ ہے کہ مقدمہ تیزی سے چلایا جائے گا بھلے ہی استغاثہ کے مرکزی وکیل پراسرار انداز میں جا چکے ہیں۔ ایف آئی اے میں موجود اہم ذریعے کا کہنا ہے کہ "حتمی فردِ جرم چند دن میں عدالت میں پیش کی جائے گی۔"

انگلش میں پڑھیں.

یہ مضمون ڈان اخبار میں 25 جنوری 2016 کو شائع ہوا.