نیوزی لینڈ کے سامنے گرین شرٹس لاچار کیوں؟
یخ بستہ پانی، بادلوں سے بھرا آسمان اور سرسبز میدان: نیوزی لینڈ جیسی پرسکون جگہ شاید کوئی نہیں۔
پر اس کی کرکٹ ٹیم اتنی پرسکون نہیں خاص طور پر اگر سری لنکا کی نیوزی لینڈ کے ہاتھوں 0-2 سے اور پاکستان کی 1-2 سے شکست دیکھیں تو۔
مگر کیا پاکستان مختصر ترین فارمیٹ کے کھیل میں ہمیشہ اتنا معمولی ہی رہا ہے؟ یقیناً نہیں۔
نیوز لینڈ کی آل راؤنڈ کارکردگی، مہارت کے ساتھ بیٹنگ اور باؤلنگ نے تین میچوں کی سیریز کے پہلے میچ میں پاکستان کی 16 رنز سے فتح کا حساب اچھی طرح برابر کیا، اور شاہد آفریدی کی ٹیم نے جو بھی درست کیا تھا، وہ بعد کے میچز کی کارکردگی کی وجہ سے یادوں سے محو ہوگیا۔
باؤلرز کا رنز پر رنز دیے جانا اور ایک کمزور ٹاپ آرڈر والے پاکستان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ جذبے سے کام لینے کے بجائے طریقے سے کام لے، اور مخالف ٹیم کی شاندار فتح کے پیچھے موجود عوامل کا جائزہ لے۔ بلیک کیپس کبھی پاکستان کا پسندیدہ ترین شکار ہوا کرتے تھے، مگر ان کی یہ حیران کن تبدیلی سنسنی خیز رہی ہے۔
ٹاپ آرڈر کی شراکت نے نیوزی لینڈ کے بڑے اسکور کرنے میں اہم کردار ادا کیا، خاص طور پر آخری دو میچز میں۔
دوسرے میچ میں عماد وسیم کی گیندوں پر کین ولیمسن کی باؤنڈریز پر باؤنڈریز نے درمیانے اوورز میں مارٹن گپٹل کے ہاتھ مضبوط کیے، اور محمد عامر اور آفریدی کو نو چوکوں اور چار چھکوں کی مدد سے پسپا کیا۔ اس کے نتیجے میں جو 171 رنز کی شراکت قائم ہوئی، وہ ٹی 20 کی تاریخ میں سب سے بڑی اوپننگ شراکت تھی۔
یہاں تک کہ تیسرے میچ میں کوری اینڈرسن کے 42 گیندوں پر 82 رنز بھی نیوزی لینڈ کو 196/5 تک نہ پہنچا پاتے اگر گپٹل اور ولیمسن نے شروع میں ایک ساتھ 57 رنز نہ بنائے ہوتے۔ ان کی کوشش، بھلے چھوٹی ہی ہو، نے پریشر کو کیوی مڈل آرڈر تک فوراً پہنچنے سے روکا، جس سے اینڈرسن کو 195 کے تہلکہ خیز اسٹرائیک ریٹ کے ساتھ کھیلنے کا موقع ملا۔
دوسری جانب پاکستان کی اوپننگ شراکت اتنی مضبوط نہیں رہی۔ ہماری سائیڈ کا یہ تصور کہ انفرادی ہیرو پارٹنرشپ کا متبادل ثابت ہوسکتے ہیں، ایک غلط تصور ہے۔ پہلے میچ میں محمد حفیظ کے 47 گیندوں پر 61 رنز کے علاوہ ٹیم کے ٹاپ 3 کھلاڑی تینوں میچز میں صرف 75 رنز بنا سکے۔
نتیجتاً سارا دباؤ مڈل آرڈر بیٹسمینوں پر پڑا۔ شعیب ملک کے 20 اور 30 رنز اور ہیملٹن میں عمر اکمل کے 56 ناٹ آوٹ نے پاکستان کو پہلے دو میچز میں 171 اور 168 تک پہنچایا۔
مگر مڈل آرڈر پر حد سے زیادہ انحصار نے ہمیں کرائسٹ چرچ میں نقصان پہنچایا جہاں ہم صرف 101 رنز بنا سکے، اور کئی سوال لوگوں کے ذہنوں میں چھوڑ گئے۔
علاوہ ازیں، پاکستان کا باﺅلنگ اٹیک تجربے میں نیوزی لینڈ سے شاید آگے تھا مگر اس سیریز میں تجربے کے مقابلے میں اثر انداز ہونے کی صلاحیت زیادہ بہتر ثابت ہوئی۔ لیفٹ آرم اسپنر مچل سینٹنر نے اسٹمپ سے اسٹمپ سادہ باﺅلنگ کی اور پاکستانی بلے بازوں کو اپنے اسٹروکس کھیلنے اور رن ریٹ بڑھانے کا زیادہ موقع نہیں دیا۔
اسی طرح کیوی اسپیڈ اسٹار ایڈم ملنے نے نئی گیند آﺅٹ سائیڈ آف 142 کلو میٹر فی گھنٹہ کی اوسط رفتار سے کروائی اور بلے بازوں کو اپنے جسموں سے دور رہ کر کھیلنے پر مجبور کیا۔ملنے کی پاکستان کی کمزوری کو سمجھنے کی صلاحیت نے اسے بیٹنگ آرڈر میں اوپر نیچے وکٹیں لینے کا موقع دیا اور وہ مجموعی طور پر آٹھ وکٹیں لینے میں کامیاب رہے جس میں آخری اوورز میں اہم ترین عمر اکمل اور آفریدی کی وکٹیں بھی شامل ہیں۔
اس کے مقابلے میں پاکستان نے اپنے صف اول کے باﺅلرز کو استعمال کرنے میں واضح غلطی یکساں اور لاحاصل شارٹ بچ باﺅلنگ کے ساتھ کی۔ وہاب ریاض نے بلے بازوں کو الجھانے کے چکر میں صرف لیگ سائیڈ پر ہی 56 رنز کھالیے۔ یہ فاسٹ باﺅلر یا کپتان اس بات کو سمجھنے سے قاصر رہے کیویز تو شارٹ بال کو اٹھا کر مارنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔
تمام پانچ بلند و بالا چھکے جو سیریز کے دوران وہاب ریاض کو پڑے وہ لیگ سائیڈ پر ہی لگے اور اسیٹنڈز سے میلوں دور تک گئے، ان کے ساتھی فاسٹ باﺅلر محمد عامر نے سیریز میں سو رنز دیئے۔
عامر کی گیندوں پر بننے والے 60 فیصد رنز ان گیندوں پر بنے جو لیگ اسٹمپ پر تھی بشمول حد سے زیادہ غلط سمت میں جانے والے یارکرز سمیت۔ وہاں گیند ہی کیوں کرواتے ہو جب تمہیں اس پر یقین نہ ہو؟
یہاں تک کہ آفریدی کی لیگ اسپن بھی فاسٹ باؤلنگ کے لیے مناسب پچ پر ادھر ادھر ہو رہی تھی. ان کی پیڈز پر جانے والی گیندیں کسی اوور میں تمام ڈاٹ بالز پر بھاری پڑجاتیں۔ دوسرے میچ میں آفریدی کے وکٹ لیے بغیر 38 اور آخری میچ میں عماد وسیم کے 42 رنز اس امر کو یاد دلاتے ہیں کہ اس اہل جوڑی میں تسلسل کی کتنی کمی ہے۔
اب مہمان ٹیم کیویز کے خلاف ون ڈے فارمیٹ میں اپنی قسمت آزمائے گی، جس کے لیے انہیں ٹاپ آرڈر شراکت داری میں تحمل کو اپنانا ہوگا۔ اسی طرح پاکستانی باﺅلرز کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ سب سے بہترین چیز پر توجہ دیں یعنی اٹیک۔
نیوزی لینڈ سے شکست نے پاکستان کو کامیابی کے لیے سبق فراہم کیا ہے. یہ سبق اور ٹیم کی کھیل کے دونوں فارمیٹس میں غیریقینی کیفیت اسے ٹور میں 2-1 کی بھاری شکست کھانے کے بعد بھی فتحیاب کروا سکتی ہے.
حنان حسین اسلام آباد میں رہتے ہیں، اور نسٹ سے پبلک پالیسی میں بیچلرز کر رہے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔