پاکستان

چارسدہ حملہ: '4 افراد نے سہولت کاری کی'

3 مرکزی سہولت کاروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے، ایک سہولت کار کو ابھی گرفتار نہیں کیا جاسکا، ڈی جی آئی ایس پی آر

پشاور: پاک فوج کے ترجمان ادارے انٹر سروسز پبلک ریلشنز (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ کا کہنا ہے کہ چارسدہ حملے میں سہولت کاری کرنے والے افراد کی نشاندہی کرکے 3 مرکزی سہولت کاروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے.

پشاور میں عسکری حکام کے اعلیٰ سطح کے اجلاس کے بعد میڈیا بریفنگ میں لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ کا کہنا تھا کہ باچا خان یونیورسٹی پر حملے میں سہولت کاری مجموعی طور پر 4 افراد نے کی جس میں 3 مرکزی سہولت کار گرفتار کیے جا چکے ہیں، ان میں عادل، ریاض اور نور اللہ شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: چارسدہ حملے کی اہم معلومات مل گئیں، فوج
طور خم بارڈر سے مردان تک دہشت گردوں کی آمد اور یونیوسٹی تک پہنچنے کا نقشہ — فوٹو : ڈان نیوز

انہوں نے بتایا کہ چاروں حملہ آور افغانستان سے طور خم کی سرحد سے پاکستان میں داخل ہوئے، بعد ازاں ایک سہولت کار ان کو بس کے ذریعے مردان تک لایا، تاہم ابھی اس سہولت کار کو گرفتار نہیں کیا جاسکا.

حملے کے حوالے سے انہوں نے مزید بتایا کہ مردان پہنچنے پر عادل اور ریاض نے حملہ آوروں کی رہائش کا انتظام کیا، حملہ آوروں کو 2 مختلف مقامات پر ٹھہرایا گیا۔

فوج کے ترجمان نے یہ نہیں بتایا کہ حملہ آور کتنے روز قبل پاکستان آئے اور انھوں نے کتنے دن مردان میں قیام کیا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ مفرور ملزم کی بیوی اور بیٹی نے بھی حملہ آوروں کی مدد کی اور ان کے لیے اسلحہ ان خواتین کے ذریعے ہی درہ آدم خیل سے لایا گیا۔

مزید پڑھیں : طالبان کمانڈر عمر منصور کون؟

عاصم باجوہ کا کہنا تھا کہ سہولت کاروں میں شامل عادل یونیورسٹی میں بطور مزدور کام کر چکا تھا، اسی نے یونیورسٹی کا نقشہ بنایا جسے حملہ آوروں نے استعمال کیا۔

فوج نے گرفتار سہولت کاروں کو بھی میڈیا کے سامنے پیش کیا، دائیں جانب سے عادل، ریاض، نور اللہ ہیں جبکہ سب سے بائیں جانب عادل کا بیٹا ہے اس کو بھی سہولت کاری کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے — فوٹو : ڈان نیوز

ایک اور سہولت کار کا ذکر کرتے ہوئے عاصم باجوہ کا کہنا تھا کہ نور اللہ نامی سہولت کار نے چارسدہ حملے کے روز حملہ آوروں کو رکشے کے ذریعے یونیورسٹی تک پہنچانے کا کام کیا اور رکشہ حاصل کرکے حملہ آوروں کو باچا خان یونیورسٹی کے قریب کھیتوں میں اتارا.

لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ نے بتایا کہ حملہ آوروں نے باچا خان یونیورسٹی پر حملے کے دوران میڈیا کے ایک نمائندے سے گفتگو بھی کی جس میں انہوں نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی، اُس کال کو ٹریس کرکے ریکارڈ کر لیا گیا تھا.

انہوں نے صحافیوں کو دہشت گرد کی ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو سنوائی، جس میں وہ حملے کی ذمہ داری قبول کر رہا ہے.

ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ افغانستان سے ایک نمبر سے 4 کالیں چارسدہ کی گئیں تھی.

لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ کا کہنا تھا کہ چارسدہ یونیورٹی کے 4 حملہ آور تھے جبکہ کال کے دوران ان کے نام عمر، عثمان، عابد فدائی بتائے گئے، ایک حملہ آور کی شناخت نادرا ریکارڈ سے ہو چکی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس حملے میں مالی مدد کرنے والوں کی ابھی مکمل طور پر نشاندہی نہیں ہوئی ہے، تاہم ان کو بھی سامنے لایا جائے گا.

لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ نے کہا کہ کبھی بھی یہ نہیں کہا گیا کہ اس حملے میں افغان حکومت کسی مرحلے میں شریک تھی، بلکہ یہ کہا گیا کہ افغانستان کے ایک مخصوص علاقے سے حملے کو کنٹرول کیا جا رہا تھا اور اُس مقام کی تمام معلومات موجود ہیں.

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ سہولت کاروں کے بغیر دہشت گردی نہیں ہوسکتی، دہشت گرد اسکولوں جیسے آسان اہداف کو نشانہ بنا رہے ہیں اور ان کے ان مقاصد کو اتحاد سے شکست دینی ہوگی.

میڈیا بریفنگ کے بعد سہولت کاروں کو میڈیا نمائندوں کے سامنے پیش کیا گیا.

یہ بھی پڑھیں : چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی پر حملہ

خیال رہے کہ 3 روز قبل خیبر پختونخوا کے ضلع چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی پر حملہ کیا گیا تھا جس میں 21 افراد کی ہلاکت ہوئی تھی جبکہ 4 حملہ آوروں کو آپریشن کے دوران ہلاک کردیا گیا تھا.

ڈی جی آئی آیس پی آر لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ کی میڈیا بریفنگ سے قبل پشاور میں فوج کا اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا تھا جس کی صدارت آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کی۔

کور ہیڈ کوارٹر پشاور میں ہونے والے اجلاس میں کور کمانڈر، ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل رضوان اختر، ڈی جی ایم آئی ، ڈائریکٹر ملٹری آپریشن سمیت دیگر اعلیٰ حکام شریک تھے۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔