پاکستان

سانحہ چارسدہ:'حملہ آورخودکش جیکٹس کے بغیر تھے'

کسی حملہ آور نے خودکش جیکٹ نہیں پہنی تھی اور نہ ہی ان کے پاس کھانے کا سامان اور پانی کی بوتلیں تھیں، سیکیورٹی ذرائع

پشاور:خیبرپختونخوا کے ضلع چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں نے خود کش جیکٹس نہیں پہن رکھی تھیں اور صوبے میں ہونے والے گذشتہ حملوں کے برعکس یہ واحد واقعہ معلوم ہوتا ہے، جب دہشت گرد خود کش جیکٹس کے بغیر تھے.

سیکیورٹی عہدیداران کا کہنا ہے کہ وہ اس حوالے سے جاننے میں تجسس رکھتے ہیں کہ دہشت گردوں نے یونیورسٹی پر حملے کے وقت خود کش جیکٹس کیوں نہیں پہنیں.

ایک سینیئر سیکیورٹی عہدیدار نے ڈان کو فون پر بتایا کہ کسی حملہ آور نے خودکش جیکٹ نہیں پہنی تھی اور نہ ہی ان کے پاس کھانے کا سامان اور پانی کی بوتلیں تھیں.

مذکورہ عہدیدار نے بتایا، 'حملہ آوروں کے پاس ٹافیاں یا بسکٹس بھی نہیں تھے'.

مزید پڑھیں:چارسدہ حملے کی اہم معلومات مل گئیں، فوج

ان کا کہنا تھا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حملہ آوروں کا طلبہ اور اسٹاف کو یرغمال بنا کر دیر تک لڑنے کاارادہ نہیں تھا، جبکہ ماضی کے دہشت گردی کے حملوں کے برعکس حملہ آور بھاری ہتھیاروں سے بھی مسلح نہیں تھے۔ اُن کے پاس صرف اے کے 47 رائفلز اور صرف 8 دستی بم تھے۔

عہدیدار کے مطابق چاروں حملہ آوروں کے پاس اضافی گولیوں کے صرف 2 میگزین تھے،جبکہ ہلکے ہتھاروں کا استعمال اس سے پہلے کسی دہشت گردی کے حملے کے دوران نہیں ہوا.

ایک اور سیکیورٹی عہدیدار کے مطابق خود کش جیکٹس اوربھاری ہتھیاروں کی غیر موجودگی سے اندازہ ہوتا ہے کہ دہشت گرد حملے کے بعد فرار ہونے کا پروگرام رکھتے تھے، لیکن یونیورسٹی کے محافظوں اور پلوسا گاؤں کے لوگوں کی مزاحمت کی وجہ سے حملہ آوروں کامنصوبہ ناکام ہوگیا۔

یہ بھی پڑھیں:سانحہ چارسدہ: مقدمہ ہلاک دہشت گردوں پر درج

انھوں نے بتایا کہ پلوسا گاؤں کے لوگوں کو جو کچھ بھی ملا وہ اسے اٹھا کر یونیورسٹی کے دفاع کے لیے آگئے، اس طرح کا ردعمل پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا.

مذکورہ عہدیدار کے مطابق گاؤں کے لوگوں کے بڑی تعداد میں یونیورسٹی کے باہر جمع ہونے سے دہشت گردوں کے فرار ہونے کا منصوبہ بھی ناکام ہوگیا.

ان کا کہنا تھا کہ گاؤں میں سب لوگ ایک دوسرے کو جانتے تھے اور حملے کے بعد گاؤں میں واپس جانا خود کو موت کے منہ میں ڈالنے کے مترادف ہوتا، یہی وجہ ہے کہ حملہ آوروں نے وہیں رہنے اور لڑائی میں مارے جانے کو ترجیح دی.

یہ بھی پڑھیں:سانحہ چارسدہ: جب اساتذہ کو ہتھیار اٹھانے پڑے

مذکورہ عہدیدار کے مطابق گاؤں کے لوگوں کا یونیورسٹی کے طلبہ کی مدد کو آنا ایک مثبت اشارہ ہے اور اگر یہی واقعہ کسی بڑے شہر میں ہوا ہوتا تو دہشت گرد فرار ہوسکتے تھے.

سیکیورٹی عہدیدار کے مطابق حملہ آور مناسب تربیت یافتہ بھی نہیں تھے جو اپنے منصوبے پر مکمل عمل درآمد کرسکتے، یہی وجہ ہے کہ حملے میں جانی نقصان کم ہوا۔

انھوں نے بتایا کہ حملہ آور صبح پونے 8 بجے کے قریب یونیورسٹی میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے اور آدھے گھنٹے کے اندر وہ یونیورسٹی کی حدود میں ایک بڑا نقصان کرسکتے تھے.

یہ بھی پڑھیں:چارسدہ حملہ: 'دہشت گردوں کو ہدایات افغانستان سے ملیں'

مذکورہ عہدیدار کے مطابق حملہ آور کنفیوژ اور مکمل طور پر تربیت یافتہ نہیں تھے اور نہ ہی انھوں نے اپنے ہدف کی احتیاط سے جاسوسی کی تھی.

ان کا کہنا تھا کہ بظاہر لگتا ہے کہ حملہ آور صرف یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ وہ اب بھی اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کے قابل ہیں.

سیکیورٹی عہدیدار نے بتایا کہ حملہ آوروں کے پاس 2 موبائل فونز کے ساتھ ایک کاغذ کے ٹکڑے پر لکھے گئے 2 فون نمبرز بھی ملے، تاہم انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ نمبر مقامی تھے یا غیر ملکی.

یہ خبر 22 جنوری 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔