آئندہ 10 ماہ میں اس عقوبت خانے سے تمام قیدی منتقل کیے جانے کا امکان ہے—۔ فائل فوٹو/ اے پی امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق محکمہ دفاع کے حکام کا کہنا ہے کہ گونتاناموبے میں مصر کے آخری شہری 58 سالہ طارق محمود احمد السواح کو بوسنیا جبکہ یمن کے شہری 41 سالہ عبد العزیز عبدہ عبداللہ علی السویدی کو جیل سے مونٹی نیگرو منتقل کیا گیا ہے۔
مصر کے طارق محمود احمد السواح کے حوالے سے وکی لیکس کی شائع کردہ امریکی کیبلز میں یہ معلومات سامنے آئی تھیں کہ اس نے تفتیش کاروں کو القاعدہ کے حوالے سے اہم معلومات فراہم کی تھیں، امریکی حکام کو یقین ہے کہ رہائی کی صورت میں وہ دوبارہ القاعدہ میں شامل نہیں ہوگا، تاہم السواح کی امریکی حکام سے معاونت کے عوض القاعدہ کی جانب سے انھیں انتقام کا نشانہ بنانے کا خدشہ ہو سکتا ہے۔
امریکی حکام نے طارق محمود احمد السواح کو 43 سال کی عمر میں 2001 میں گرفتار کیا تھا جبکہ 2002 میں انھیں گوانتاناموبے منتقل کیاگیا، 14 سال اس عقوبت خانے میں رکھے جانے کے بعد اب انھیں بوسنیا میں امریکا کے ہی ایک حراستی مرکز منتقل کیا گیا ہے۔
طارق محمود احمد السواح کو بوسنیا اس لیے منتقل کیا گیا ہے کیونکہ ان کے پاس مصر کے علاوہ بوسنیا کی شہریت بھی تھی، امکان ہے کہ وہ رہا ہو کر بوسنیا میں ہیں رہیں گے۔
مونٹی نیگرو منتقل کیے گئے یمن کے شہری عبدالعزیز عبدہ عبداللہ علی السویدی کو2001 میں 25 سال کی عمر میں القاعدہ کا رکن ہونے کے شبہے میں پاکستانی حکام نے کراچی سے گرفتار کیا تھا، بعد ازاں ان کو امریکی حکام کے حوالے کیا گیا جنہوں نے ان کو 2002 میں گوانتاناموبے منتقل کیا.
نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق عبدالعزیز عبدہ عبداللہ علی السویدی کے وکیل کا کہنا تھا کہ ان کو مونٹی نیگرو اس لیے منتقل کیا گیا ہے کیونکہ وہ شکل و صورت سے یورپی لگتے ہیں اور وہ باآسانی مونٹی نیگرو میں زندگی گزار سکیں گے۔
یمن کے ہی ایک اور قیدی 35 سالہ محمد علی عبداللہ بوزیر نے جیل سے کسی ایسے ملک منتقل ہونے سے انکار کر دیا جہاں ان کے رشتے دار نہ ہوں۔
محمد علی عبداللہ بوزیر کو 21 سال کی عمر میں گرفتار کیا گیاتھا جبکہ ان کو 2002 میں گوانتاناموبے منتقل کیا گیا تھا۔
ان کے وکیل جان چانڈلر نے بھی اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ وہ کسی ایسے ملک جانا چاہتے ہیں جہاں ان کے خاندان کے افراد موجود ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ان کی زندگی کا سب سے افسوسناک دن تھا کیونکہ ان کا موکل جو 14 سال سے قید ہے کا کہنا ہے کہ وہ اب زندگی کسی ایسی جگہ کیسے گزاریں گے جہاں ان کے رشتے دار نہ ہوں۔
جان چانڈلر نے یہ بھی کہا کہ محمد علی عبداللہ بوزیر متحدہ عرب امارات، سعودی عرب یا انڈونیشیا جانا چاہتے ہیں جہاں ان کے خاندان کے افراد آباد ہیں۔
خیال رہے کہ نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ہونے والے حملے بعد ریپبلکن پارٹی کے رہنما اور سابق امریکی صدر جارج بش نے ایک اور ملک کیوبا کے جزیرے گوانتاناموبے میں یہ جیل بنوائی تھی۔
سی این این کی ایک رپورٹ کے مطابق گوانتاناموبے میں 2001 کے بعد 40 ممالک کے 750 افراد کو قیدی بنایا گیا تھا۔
ان قیدیوں کو انتہائی خطرناک قرار دے کر بغیر کسی بھی قسم کی قانونی مدد کے گونتاناموبے میں ہمیشہ کے لیے قید کیا گیا تھا اور یہاں ان کے ساتھ انتہائی انسانیت سوز رویہ اختیار کیا گیا۔
2008 میں ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار براک اوباما امریکا کے صدر بنے تو انہوں نے یہ عقوبت خانہ بند کرنے کا اعلان کیا، اوباما کا کہنا تھا کہ گوانتاناموبے پر سالانہ 15 کروڑ امریکی ڈالر خرچ ہو رہے ہیں لہذا اس کو بند کرکے اس رقم کی بچت کی جا سکتی ہے۔
خیال رہے کہ رواں برس نومبر میں امریکا میں صدارتی انتخابات ہونے جا رہے ہیں لہذا امکان ہے آئندہ 10 ماہ میں اس عقوبت خانے کو مکمل طور پر بند کر دیا جائے اور باقی بچ جانے والے 91 قیدیوں کو مختلف ممالک منتقل کر دیا جائے گا۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے جیل کے قیام کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس کو ’قانونی بلیک ہول' کا نام دیا گیا تھا۔
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔