پاکستان

سپریم کورٹ : تلور کے شکار پر پابندی کالعدم قرار

عدالت نے تلور کے شکار پر عائد پابندی ختم کرتے ہوئے وفاق اور صوبائی حکومتوں کی درخواستیں سماعت کے لیے منظور کرلیں.
|

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے تلور کے شکار پر عائد پابندی ختم کرتے ہوئے وفاق اور صوبائی حکومتوں کی درخواستیں سماعت کے لیے منظور کرلیں.

یاد رہے کہ گذشتہ برس 19 اگست کو سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے تلور کے شکار پر پابندی عائد کردی تھی، جس کے بعد وفاق، پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی جانب سے سپریم کورٹ میں اس پابندی کے خلاف نظرثانی کی درخواستیں دائر کی گئیں.

مزید پڑھیں:'تلور' کے شکار پر پابندی عائد

گذشتہ برس اکتوبر میں وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ سے تلور کے شکار پر لگائی جانے والی پابندی کو اٹھانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ خطے میں موجود افراتفری کے باعث مذکورہ پابندی سے ہمارے تعلقات عرب ریاستوں سے مزید کمزور ہوتے جارہے ہیں۔

تلور کے شکار پر لگائی جانے والی پابندی کے فیصلے کا اثر نو جائزہ لینے کے لیے وزارت خارجہ کی جانب سے دائر کی جانے والی پٹیشن میں کہا گیا تھا کہ’یہ پٹیشن خیلجی ریاستوں کے ساتھ ہمارے خارجہ تعلقات پر براہ راست اثر انداز ہونے والے فیصلوں کے حوالے سے ہے۔‘

یہ بھی پڑھیں:عرب شہزادوں کا شکار: 'خارجہ پالیسی کا اہم ستون‘

وفاق کا کہنا تھا کہ مذکورہ معاملہ پاکستان کی خارجہ پالیسی سے متعلق ہے اور اس قسم کے معاملات میں اعلیٰ عدلیہ مداخلت کرنے سے گریز کرتی ہے۔

بعد ازاں چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بینچ نے رواں ماہ 8 جنوری کو ان درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کیا تھا، جو آج سنایا گیا.

واضح رہے کہ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی عمرے کی ادائیگی کے لیے بیرون ملک ہیں، جس کے باعث جسٹس میاں ثاقب نثار نے کثرت رائے سے کیس کا مختصر فیصلہ پڑھ کر سنایا.

فیصلے میں جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا اختلافی نوٹ بھی شامل ہے.

سپریم کورٹ نے 3 رکنی بینچ کے گذشتہ برس 19 اگست کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ نظرثانی کی تمام درخواستوں کو ازسرنو سنا جائے گا۔

سپریم کورٹ نے اپنے تفصیلی فیصلے میں کہا کہ عالمی ادارہ برائے جنگلی حیات نے تلور کو معدوم ہونے والی نسلوں میں شامل نہیں کیا اور حکومت بلوچستان نے تلور کو قابل شکار پرندہ قرار دیا، اس لیے عدالت اس معاملے میں مداخلت نہیں کرسکتی.

فیصلے میں کہا گیا کہ عدالت کو کسی بھی مرحلے پر جنگلی حیات کے حوالے سے صوبوں کے قوانین اور پرمٹ جاری کرنے کے طریقہ کار سے آگاہ نہیں کیا گیا، ان چیزوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے جبکہ نظرثانی کی تمام درخواستوں کا بھی ازسرنو جائزہ لینا ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں:' سعودی شہزادے بلوچستان میں تلور کا شکار کرنے نہیں آئے'

سائبیریا سے ہجرت کرکے آنے والے نایاب پرندے تلور کی نسل کو معدومی سے بچانے کے لئے بلوچستان ہائی کورٹ نے نومبر 2014 میں عرب شیوخ کو شکار گاہیں الاٹ کرنے کے اقدام کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے تلور کے شکار پر پابندی عائد کی تھی جس کو محکمہ جنگلات کی جانب سے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ باز سے شکار کرنا عربوں کے لیے صرف ایک کھیل نہیں ہے بلکہ یہ ان کی ثقافت کا حصہ ہے اور اسے یونیسکو نے ثقافتی ورثے کے طور پر تسلیم کیا ہے۔

جبکہ پاکستانی وزارت خارجہ عمومی طور پر عرب شہزادوں اور دیگر اعلیٰ عرب شخصیات کو تلور کے شکار کے پرمٹ جاری کرتی رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں : تلور کی دہائی

تلور نامی بڑے پرندے زمین پر رہنے والے پرندوں کے گروہ سے تعلق رکھتے ہیں، یہ کھلی زمین اورگھاس کے میدانوں میں رہتے ہیں اور زمین پر گھونسلابناتے ہیں. اپنی مضبوط ٹانگوں اور بڑے پنجوں کی مدد سے یہ زمین پر آسانی سے چل سکتے ہیں، جبکہ ان کے اضافی پَر انھیں اڑنے میں مدد دیتے ہیں۔

پاکستان میں تلور قازقستان اورایران سے آتے ہیں اور بلوچستان اور پنجاب کے جنوبی حصے میں واقع صحرائے چولستان میں پڑاؤ کرتے ہیں۔

شکار کے باعث اس پرندے کی تعداد میں تیزی سے کمی ہورہی ہے، ان کی تعداد بڑھانے کے لیے عرب سیکیورٹی ایجنسیز نے 40 ہزار سے زائد تلور اسمگلروں سے برآمد کرکے پاکستان میں چھوڑے اور ایک فاؤنڈیشن کے تحت پاکستان میں تلور کی افزائش کی جارہی ہے۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔