پاکستان

پی آئی اے نجکاری بل قومی اسمبلی بھیج دیا گیا

خصوصی اور قائمہ کمیٹیوں کے اجلاس میں پی آئی اے کی نجکاری کی مخالفت کی گئی لیکن اس کے باوجود بل منظور کرلیا گیا۔

اسلام آباد: پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کی نجکاری کے حوالے سے خصوصی پارلیمانی کمیٹی اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں اپوزیشن اراکین کی مخالفت کے باوجود مجوزہ بل منظور کرکے قومی اسمبلی میں منظوری کے لیے بھیج دیا گیا۔

قومی ایئرلائن کے حوالے سے خصوصی پارلیمانی کمیٹی اور قائمہ کمیٹی کا الگ الگ اجلاس ہوا جس میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے اپوزیشن اراکین نے ناصرف پی آئی اے کی مجوزہ نجکاری کا بل مسترد کیا، بلکہ اسے کارپوریشن سے پبلک لمیٹڈ کمپنی کا درجہ دینے کی بھی مخالفت کی۔

تاہم حکومتی اراکین نے پی آئی اے کی نجکاری کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ 350 ارب روپے کے خسارے میں چلنے والے ادارے کو اس کی موجودہ انتظامیہ مزید نہیں چلاسکتی۔

پی آئی اے کے حوالے سے خصوصی کمیٹی کا اجلاس

قومی ایئرلائن کی نجکاری کے حوالے سے قائم قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں پی ٹی آئی کے رہنما اسد عمر نے پی آئی اے کی موجودہ حالات میں نجکاری کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ادارے کی انتظامیہ کو پہلے اس کا خسارہ کم کرنا چاہیے کیونکہ اتنے نقصان میں ڈوبے ادارے کو خریدنے کے لیے کوئی بھی سرمایہ کار سامنے نہیں آئے گا۔

انہوں نے کمیٹی کو تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے حکومت کو ادارے کا 350 ارب کا خسارہ ختم کرنا چاہیے اور اس کے بعد پیشہ ور افراد کو ادارے کے معاملات چلانے کے لیے شامل کیا جانا چاہیے، جبکہ خسارہ کم کرنے اور ریونیو بڑھانے کے لیے بیڑے میں مزید جہاز شامل کیے جانے چاہیئیں.

نجکاری کمیشن کے سابق سربراہ اور پی پی پی کے رہنما سید نوید قمر نے اسد عمر کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ قومی ایئرلائن کے ایک بھی ملازم کو نکالا نہیں جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے غلط بیانی کی گئی کہ کمیٹی کے تمام اراکین نے پی آئی اے کی نجکاری پر اتفاق کیا ہے، کیونکہ اب تک اس حوالے سے کچھ بھی واضح نہیں ہے اور نہ ہی کسی کو یہ پتہ ہے کہ ایئرلائن کے موجودہ ملازمین کا کیا ہوگا۔

اجلاس کے دوران کمیٹی اراکین کو بتایا گیا کہ پی آئی اے کے ایک جہاز پر کام کرنے والے عملے کا تناسب بھی دنیا کی دیگر ایئرلائنز کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے، پی آئی اے کے ایک جہاز پر 389 کا عملہ کام کرتا ہے جبکہ دیگر ایئر لائنز، جیسا کہ قطر ایئرلائنز پر 229، ایئر انڈیا کے ایک جہاز پر 152، ایئر فرانس پر 296، امارات پر 232 اور کے ایل ایم پر 282 افراد پر مشتمل عملہ کام کرتا ہے۔

اجلاس میں یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ پی آئی اے کے بیرون ملک 700 ملین ڈالر مالیت کے دو ہوٹلوں سے گزشتہ 20 سال سے کوئی ریونیو حاصل نہیں ہورہا۔

خصوصی کمیٹی کے چیئرمین زاہد حامد نے کہا کہ ان کی ذمہ داری پوری ہوگئی اور اب یہ بل قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کو بھیج دیا جائے گا، جس کا اجلاس خصوصی کمیٹی کے اجلاس کے فوری بعد اسی مقام پر ہوا۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں بھی اپوزیشن اراکین کی مخالفت کے باجود بل ووٹنگ کے ذریعے منظور کرکے قومی اسمبلی کو بھیج دیا گیا۔

اس موقع پر پی پی پی رہنما ڈاکٹر مہرین رزاق بھٹو کا کہنا تھا کہ اگر کمیٹی کو پی آئی اے فروخت کرنے کی اتنی ہی جلدی ہے تو اسے اس کا اشتہار او ایل ایکس (آن لائن خرید و فروخت کی کمپنی) پر دے دینا چاہیے۔

مجوزہ بل

بل کے مسودے کے تحت پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن کارپوریشن (پی آئی اے سی) کو پبلک لمیٹڈ کمپنی میں تبدیل کرکے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کمپنی لمیٹڈ (پی آئی اے سی ایل) بنادیا جائے گا۔

پی آئی اے سی ایل کو پی آئی اے سی کے تمام اثاثے، ڈیوٹیز اور ذمہ داریاں حاصل ہوں گی، جبکہ اسے پی آئی اے سی کو حاصل تمام فائدے بھی ملیں گے۔

یہ خبر 20 جنوری 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں.