'باجی دروازہ کھولیں، میں مر رہی ہوں' — آگے کیا ہوا؟
اس کا نام فیروزہ ہے اور وہ سات سال کی ہے۔ ایک طویل عرصے کے بعد ایسا وقت آیا ہے جب اسے گرم چمٹے سے پیٹا نہیں جا رہا اور نہ ہی رات کے وقت ٹھنڈے باتھ روم میں بند کیا جا رہا ہے۔ بچوں کے تحفظ کے ادارے چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو (سی پی ڈبلیو پی) نے اسے گجرانوالہ کے کانگی والا بائی پاس کے قریب ایک گھر سے برآمد کیا ہے۔
فیروزہ وہی بچی ہے جس کی مدد کی پکار میں نے راولپنڈی میں سنی تھی اور نظرانداز نہیں کر سکا تھا۔
وہ رات کو پکارتی تھی، "باجی دروازہ کھولیں، میں یہاں مر رہی ہوں"۔
میں نے اس پر تشدد کی کہانی ڈان ڈاٹ کام پر تحریر کی جس پر قارئین کی جانب سے زبردست ردِ عمل سامنے آیا۔ میں نے اپنے گذشتہ بلاگ میں تشدد کے شکار بچوں کے لیے ایک ہیلپ لائن کی خواہش کی تھی۔ خوش قسمتی سے پنجاب میں ایک ایسی ہیلپ لائن موجود ہے۔
جب میں اپنے بلاگ کے نیچے دیے گئے تبصرے پڑھ رہا تھا، تو ان میں حسن رشید کا ایک تبصرہ تھا کہ "1121 ڈائل کریں، کیا پتہ آپ کسی بچے کی جان اور مستقبل بچا سکیں؟"۔
جب نمبر ڈائل کیا گیا
حکومتِ پنجاب اور پولیس کی جانب سے فوری ردِ عمل سامنے آیا۔ کچھ ہی دیر میں راولپنڈی کی چائلڈ پروٹیکشن آفیسر مس کبریٰ ملک لائن پر تھیں، جنہوں نے مجھے یقین دلایا کہ وہ فیروزہ کو بچانے کے لیے سرچ وارنٹ حاصل کریں گی اور اس پر عمل کروائیں گی۔
مگر پھر فیروزہ گجرانوالہ سے کیسے ملی؟
پشاور روڈ کے قریب ایک آبادی میں فیروزہ غیر قانونی طور پر ملازم رکھی گئی تھی۔ پڑوسیوں کو اس پر ہونے والے ظلم کا معلوم تھا۔ کچھ لوگوں نے اسے گھر والوں سے پٹتے ہوئے بھی دیکھا تھا، مگر کسی نے اس کی مدد نہیں کی۔
لوگ سمجھتے تھے کہ اس کا نام راشدہ ہے اور وہ 12 سال کی ہے۔ یہ بے حسی نہیں تھی، مگر لوگ جانتے نہیں تھے کہ مدد کس سے طلب کی جائے۔ افسوس کی بات ہے کہ دردمند لوگ اور متاثرین ملزمان سے زیادہ پولیس سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔
مجھے اس کا نام معلوم نہیں تھا، اور نہ ہی یہ معلوم تھا کہ وہ کیسی دکھتی ہے۔ مجھے صرف یہ معلوم تھا کہ راولپنڈی کینٹ کے ایک گھر میں ایک بچی باتھ روم میں بند تھی اور مدد چاہتی تھی۔ یہ 12 ربیع الاول کی رات تھی۔
اس رات میں نے ویسٹرِج پولیس کو اطلاع دی، جنہوں نے کچھ ہی منٹ میں ایک موبائل بھیج دی، مگر وہ تلاشی کے احکامات کے بغیر گھر میں داخل نہیں ہو سکتے تھے۔
چند دن بعد مس کبریٰ ملک اور ان کے ساتھی پولیس کے ساتھ آئے، اور اس بار ان کے پاس سرچ وارنٹس موجود تھے۔
مگر فیروزہ کا کچھ اتا پتہ نہیں تھا۔
جب ہم گلی میں کھڑے یہ سوچ رہے تھے کہ اب کیا کیا جائے، تو ایک خاتون اپنے گھر سے نکلیں، اور پولیس کو بتایا کہ انہوں نے بھی بچی پر تشدد ہوتے دیکھا تھا، اور شاید اس گھرانے نے بچی کو قریبی گھر میں چھپا رکھا ہو۔ مزید پڑوسی بھی حمایت میں باہر نکل آئے۔ تلاش کا دائرہ دیگر گھروں تک پھیلایا گیا، مگر وہ پھر بھی نہیں ملی۔
جب فیروزہ پر تشدد کرنے والی خاتون اقصیٰ (آخری نام حذف کردیا گیا ہے) سے پوچھا گیا، تو انہوں نے ہچکچاتے ہوئے بتایا کہ فیروزہ کو گجرانوالہ میں ایک اور گھرانے کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
کچھ ہی منٹوں میں چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے گجرانوالہ دفتر میں اطلاع دی گئی۔ ایک اور سرچ پارٹی نے سرچ وارنٹس حاصل کیے اور آخرکار اسے کانگی والا بائی پاس کے قریب ایک گھر سے تلاش کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ پولیس نے ایک شخص خالد کے خلاف ایف آئی آر درج کی، جو مبینہ طور پر اقصیٰ کے والد ہیں۔
پولیس کو بعد میں معلوم ہوا کہ فیروزہ دیہی سندھ سے تعلق رکھتی ہے، اور شاید اسے اس کے وارثوں نے فروخت کر دیا تھا۔
فیروزہ نے چائلڈ پروٹیکشن بیورو کو اپنے ساتھ ہونے والے ظلم و تشدد کے بارے میں بتایا۔ اقصیٰ اسے گرم چمٹے سے مارا کرتی اور پھر ایک ٹھنڈے باتھ روم میں بند کر دیا کرتی۔ باتھ روم سے آتی اس کی یہی آوازیں تھیں جنہوں نے مجھے قدم اٹھانے پر مجبور کیا۔
فیروزہ کی کہانی مایوسی اور امید کی ہے
ایسے معاشرے کے بارے میں کیا کہا جائے جہاں غربت یا لالچ کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کو غلام کی طرح فروخت کر دیتے ہیں۔
ایسے گھر کے بارے میں کیا کہا جائے جہاں تین سالہ بچی کی ماں کسی دوسرے کی سات سالہ بچی کو باقاعدگی سے مارتی پیٹتی ہے۔
مگر امید کی کرن بھی موجود ہے۔ ویسٹرِج پولیس نے سورج طلوع ہونے سے قبل فون کرنے پر بھی چند ہی منٹوں میں پولیس موبائل بھیجی۔ یہ پولیس کا اقصیٰ کا گھر جانا ہی تھا جس نے انہیں خبردار کیا اور اسے وہاں سے منتقل کر دیا گیا۔
اس پر تشدد اس رات کے بعد سے رک گیا تھا، مگر وہ تب بھی محفوظ نہیں تھی۔
فیروزہ کو تشدد سے مکمل نجات صرف تب ملی جب گجرانوالہ کے چائلڈ پروٹیکشن آفیسر احمد چیمہ اور ان کے ساتھیوں نے اسے خالد بٹ کے گھر سے برآمد کیا اور ریاست کی تحویل میں لے لیا۔
شاید لوگ یہ پوچھیں کہ کیا فیروزہ کو واقعی بچا لیا گیا ہے؟
وہ کتنا عرصہ ریاستی تحویل میں رہے گی؟
اگر اسے اس کے حقیقی وارثوں تک پہنچایا گیا، تو کیا وہ اسے دوبارہ کسی اور خاندان کو فروخت کر دیں گے؟
یہ اہم سوالات ہیں، مگر ان سوالات کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ریاستی اداروں کو اپنا کام بخوبی اور بروقت کرنے پر داد نہ دیں۔ پولیس مدد طلب کرنے پر فوراً پہنچی۔ مس کبریٰ ملک کی ٹیم نے فوراً مکمل قانونی تحفظ کے ساتھ اقدام اٹھایا۔ مس کبریٰ ملک نے مجھے یہ بھی بتایا کہ اس سے پہلے کہ میری باقاعدہ شکایت ان تک پہنچتی، بیورو کی چیئرپرسن مس صبا صادق نے پہلے ہی فیروزہ کے بارے میں ڈان ڈاٹ کام پر بلاگ پڑھنے کے بعد ادارے کو الرٹ کر دیا تھا۔
پنجاب بھر میں بیورو زبردست کام کر رہا ہے، اور ان بے یار و مددگار بچوں کی مدد کر رہا ہے جنہیں ان کا خاندان اور معاشرہ دھتکار چکا ہے۔
انہوں نے لاہور میں انصار کی مدد کی، جسے گرم توے سے مارا جاتا تھا۔ اسے صرف 1000 روپے کی عوض فروخت کر دیا گیا تھا۔
انہوں نے شہزاد کو ایسے گھرانے سے چھڑوایا، جہاں اس کی مالکن اس کی گردن اپنے ناخنوں سے کھرچتی تھی۔ وہ اسے کپڑوں کے ہینگر سے مارا کرتی، جس سے اس کے سر اور آنکھوں کو نقصان پہنچا تھا۔
یہ تشدد کرنے والے اور کوئی نہیں بلکہ آپ کے دوست، خاندان اور پڑوسی ہیں۔ یہ سب کچھ روکا جا سکتا ہے اگر ہم پہلا قدم اٹھائیں۔
ریاست نے پہلے ہی آپ کی مدد کے لیے قانون سازی کی ہے اور ادارے قائم کیے ہیں۔ پنجاب لاچار اور نظرانداز کردہ بچوں کا قانون 2004 (ترمیم 2007) ریاست اور معاشرے کو ظلم و ستم کا شکار بچوں کی مدد کرنے کے لیے اختیارات دیتا ہے۔ مگر ریاست یہ سب اکیلے نہیں کر سکتی۔
فیروزہ کی کہانی ہمیں ایک بات بتاتی ہے: ایک بے یار و مددگار بچے پر تشدد کرنے والوں کو روکنے کے لیے صرف ایک شخص ہی کافی ہے۔ پولیس، چائلڈ پروٹیکشن بیورو، اور سب سے اہم، آپ کے پڑوسی، آپ کی مدد کے لیے ضرور کھڑے ہوں گے۔
مگر پہلا قدم آپ ہی کو اٹھانا ہوگا۔
چائلڈ پروٹیکشن بیورو پنجاب صوبے کے سرکاری اسکولوں میں جا کر بچوں کو اس حوالے سے آگاہی فراہم کر رہا ہے تاکہ بچے اپنے گھروں اور آس پاس میں ہونے والے اس طرح کے واقعات کی ریاست کو شکایت کر سکیں۔
مجھے امید ہے کہ پاکستان میں ٹیلی کام انڈسٹری اور الیکٹرانک میڈیا بھی ایسی ہی مہم چلائیں تاکہ لوگوں کو یہ بتایا جا سکے کہ اس طرح کے معاملات میں کس سے رابطہ کرنا چاہیے۔
اس کے علاوہ مجھے یہ امید بھی ہے کہ اگر دوسرے صوبوں نے اب تک یہ کام نہیں کیا ہے، تو اب وہ پنجاب کی مثال پر عمل کرتے ہوئے مؤثر اور باوسائل چائلڈ پروٹیکشن بیورو قائم کریں گے۔
یہ کہنا درست نہیں کہ بچے قیمتی ہوتے ہیں — فیروزہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔
وہ اور اس کی طرح کے دوسرے بچے اس ملک کا مستقبل ہیں۔ انہیں بچایا جانا اور انہیں پروان چڑھانا چاہیے تاکہ اس قوم کا مستقبل سنور سکے۔
مرتضیٰ حیدر ٹورنٹو میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں، اور regionomics.com کے ڈائریکٹر ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: regionomics@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔