کیا ہم آنے والی گرمی کے لیے تیار ہیں؟
کراچی کے شہریوں نے گذشتہ سال قیامت خیز گرمی دیکھی۔ جو تین دن کراچی کے شہریوں نے گزارے تھے، وہ ہی جانتے ہیں، لیکن اس صورتحال میں اس شہر کے مفلوج سسٹم کی جو حالت تھی وہ خود ایک قیامت سے کم نہ تھی جس کی وجہ سے ہلاکتوں میں اضافہ ہوا۔
جیسے ہی سورج نے اس شہر پر آگ اگلانا شروع کی، اسی وقت سے کے الیکٹرک کا تمام نظام مفلوج ہو کر رہ گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اسپتالوں میں آکسیجن کی مشینیں کام کرنا چھوڑ گئیں، مارکیٹ میں برف ملنی بند ہوگئی اور جان بچانے والی ادویات خراب ہونا شروع ہوگئیں، یہاں تک کہ سرد خانوں میں رکھی گئی میتیں گنجائش سے زیادہ ہو گئیں اور بجلی کی عدم فراہمی کی وجہ سے خراب ہونا شروع ہو گئیں۔
ایک طرف انسانی جانیں ضائع ہوئیں تو دوسری جانب مرغیوں اور مویشیوں کے فارمز پر بھی یہ تباہی کے منظر دیکھے گئے۔ لیکن افسوس، اس تمام صورتحال میں حکرانوں اور اداروں کا کردار نہایت تکلیف دہ رہا، لوگ مرتے رہے اور ادارے ایک دوسرے پر ہلاکتوں کی ذمہ دارے ڈالتے رہے۔
پڑھیے: کراچی: دھماکوں اور گولیوں کے بعد اب گرمی
میں نے ان حالات میں جب یہ دیکھنا چاہا کہ کوئی ہے جو اس شہر کے لیے اس وقت کچھ کر رہا ہے، تو یقین جانیں کہ مجھے اپنی مدد آپ کے تحت تو کئی کام ہوتے نظر آئے، لیکن جب میں اس شہر کی اہم سڑکوں پر نکلا تو مجھے چند ایک مقامات پر حکومت سندھ کی جانب سے ٹینٹ لگے نظر آئے جن کے اوپر ایک بینر لگا تھا کہ یہاں سایہ اور پینے کا ٹھنڈا پانی دستیاب ہے لیکن نہ اس میں کسی بھی قسم کا سایہ تھا اور نہ ہی پینے کا ٹھنڈا پانی۔
چلیں اب جو ہو چکا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا، لیکن جو ہو چکا اس سے کیا سبق سیکھا گیا؟ دنیا کے تمام ممالک کسی بھی حادثے اور قدرتی آفت کے بعد ایسی حکمت عملی ترتیب دیتے ہیں جس سے دوبارہ اس حادثے کے رونما ہونے کا امکان یا تو کم ہوجائے، یا پھر کم سے کم جانی و مالی نقصان کا اندیشہ ہو۔ لیکن پاکستان میں صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے قدرتی فیز ایل نینو کے اثرات کی وجہ سے خشک موسم کے نقصانات کا سامنا کر رہا ہے۔ اس کے مضر اثرات کی وجہ سے موسم اپنے معمول کے مطابق نہیں رہتے اور ماحول میں کئی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، مثلاً گرمیوں کی شدت میں بتدریج اضافہ۔
اس کے علاوہ گلوبل وارمنگ تو اپنی جگہ موجود ہے ہی، جس کی بڑی وجوہات میں درختوں کی کٹائی، کوئلے، ڈیزل اور پیٹرول کو بطور ایندھن استمال کرنا، بڑھتی آبادی، گاڑیوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ اور کارخانوں کی چمنی سے اٹھنے والے دھواں ہے، اور اس کے اثرات کو کم کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر شجر کاری کی ضرورت ہے۔
ایل نینو کے مضر اثرات کراچی میں واضح طور پر نظر آنے شروع ہوگئے ہیں جس کی ایک مثال گذشتہ ہفتے دیکھنے میں آئی جب کراچی میں اچانک موسم گرم ہو گیا۔ کراچی میں یوں تو سردی ویسے بھی کچھ زیادہ نہیں پڑتی، لیکن اس سال تو وہ سردی بھی نہیں آئی جو گذشتہ سال تھی۔
اگر آپ غور کریں تو آم کے درختوں میں پھول اس وقت آتے ہیں جب مارچ یا اپریل میں گرمی شروع ہو رہی ہوتی ہے، لیکن اس دفعہ دسمبر میں ہی آم کے درختوں پر پھول نظر آنے لگے ہیں۔ کراچی میں 2015 کا موسم اب تک کا گرم ترین موسم تھا، تاہم کراچی شہر کے محل وقوع کی بناء پر اس سال خدشہ ہے کہ 2015 سے کہیں زیادہ گرمی پڑے۔ کراچی کی بلند و بالا عمارتیں گرم ہوا کو جکڑ لیتی ہیں اور اسے شہر سے باہر نہیں جانے دیتیں، جس سے شہر بھٹی کی طرح گرم ہوجاتا ہے۔
مزید پڑھیے: کراچی میں اتنی شدید گرمی کیوں
پچھلے سال کے مقابلے میں اس سال شہر کو بلدیاتی نظام میسر آیا ہے اور کراچی کو نیا میئر ملا ہے۔ گو کہ اب تک بلدیاتی اداروں نے باقاعدہ کام کا آغاز نہیں کیا ہے، لیکن قوی امید ہے کہ فروری کے آخر تک اس کا باقاعدہ آغاز ہوگا، اس لیے اس سال کا گرم موسم میئر اور بلدیاتی اداروں کے لیے بھی ایک چیلنج ہوگا۔ دعا ہے کہ اس وقت تک بلدیاتی اداروں کو ان کے اختیارات دے دیے جائیں۔ اب جیسا کہ اس شہر کراچی میں اس سال زیادہ گرمی پڑنے کے خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں، تو اس کے لیے حکومتی اور عوامی سطح پر تیاریوں کی ضرورت ہے تاکہ کم سے کم جانی اور مالی نقصان کا سامنا ہو۔
حکومتی سطح پر جو کام کیے جانے ہیں، ان پر ابھی سے کام شروع کر دینا چاہیے جس میں زیادہ سے زیادہ ہیٹ اسٹروک مراکز کا قیام، تمام ہسپتالوں میں ہیٹ اسٹروک ادویات کا ذخیرہ، شہر میں پینے کے پانی کے نظام کی بہتری، کے الیکٹرک میں پچھلے سال والے مسائل کا حل اور گرم موسم میں بلا تعطل بجلی کی فراہمی یقینی، شہر کو پانی فراہم کرنے والی موٹروں کو شمسی توانائی پر منتقل کرنا، بلدیاتی اداروں کا واٹر ٹینکر سروس کو تیار رکھنا، تمام سرکاری اور نجی فلاحی اداروں کا ایمبولنس کے لیے ایندھن کا ذخیرہ رکھنا، اور شہر کے بڑے بڑے سرد خانوں کے نظام کو شمسی توانائی پر منتقل کرنا شامل ہیں۔
گرمی پڑنے سے روکی نہیں جا سکتی، نہ ہی موسم کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر موسم ہماری وجہ سے بگڑ رہے ہیں، تو نہ صرف اپنی عادات میں تبدیلی لا کر ان کے مضر اثرات سے نمٹا جا سکتا ہے، بلکہ پیشگی حفاظتی اقدامات کے ذریعے اگر موسم کو شکست نہیں دی جا سکتی تو کم از کم بہت سی وہ جانیں ضرور بچائی جا سکتی ہیں جو موسم کی شدت کے بجائے انسانی غفلت کی وجہ سے جاتی ہیں۔
محمد ارشد قریشی انٹرنیشنل ریڈیو لسنرز کلب کراچی کے صدر ہیں، اور سماجی مسائل پر لکھتے ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: Maq_arshad@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔