پاکستان

سیکیورٹی خدشات: پشاور کے اسکول بند

ڈپٹی کمشنرکے دفترسے محکمہ تعلیم سمیت تمام ایجوکیشن آفیسرز کو ہنگامی بنیادوں پر اسکولز بند کرنے کی ہدایت جاری کی گئی۔
|

پشاور: خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں سیکورٹی خدشات کے پیش نظر سرکاری ونجی اسکولوں کو بند کردیا گیا۔

پشاور کے ڈپٹی کمشنر کی جانب سے جمعہ کی شب تاخیر سے ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا تھا جس کے بعد ہفتے کے روز تمام اسکول بند کر دیئے گئے۔

ڈپٹی کمشنر پشاور کے دفتر سے محکمہ تعلیم سمیت تمام ایجوکیشن آفیسرز کو ہنگامی بنیادوں پر اسکولز بند کرنے کی ہدایات جاری کی گئیں۔

ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق سیکیورٹی خدشات اور دھمکی آمیز خطوط ملنے کے بعد پشاور میں کینٹ کے علاقہ نوتھیہ اور شہر میں واقع سرکاری اور نجی اسکولوں کو بند کیا گیا۔

انتظامیہ کے مطابق اسکولوں کو سیکیورٹی خدشات کی بنا پربند کیا گیا۔

ذرائع کے مطابق پشاور میں 100 کے قریب سرکاری اسکول ہیں جن کو بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا جبکہ عمومی طور پر غیر سرکاری اسکولوں ہفتے کے روز بند ہوتے ہیں۔

واضح رہے کہ ایک سال قبل دسمبر 2014 میں پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا جس میں 130 بچوں سمیت 150 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

سیکیورٹی خدشات کےباعث اسکول بند کرنے کا فیصلہ گیا— فوٹو: علی اکبر

اس حملے کے بعد دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے جہاں اور بہت سے اقدامات کیے گئے، وہیں ان میں سے ایک ملک بھر کے اسکولوں میں سیکیورٹی کی صورتحال کو بہتر بنانا بھی ہے اور اس حوالے سے اسکول انتظامیہ کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اسکولوں کی باؤنڈری والز پر خاردار تاروں سمیت سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب کو بھی یقینی بنائیں البتہ ابھی تک ان احکامات پر مکمل طور پر عملدرآمد ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔

یہ بھی پڑھیں : پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملہ

خیال رہے کہ پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملے سے قبل اور بعد میں بھی ملک بھر میں اسکولوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

ہنگامی بنیادوں پر نوٹیفیکیشن جاری ہونے کے باعث بعض اسکولوں میں آنے والے طلبہ کو واپس بھیج دیا گیا— فوٹو: علی اکبر

مارچ 2013 میں کراچی کے ایک اسکول پر حملہ کیا گیا تھا جس میں اسکول کے پرنسپل ہلاک ہو گئے تھے جبکہ 8 بچے زخمی ہوئے تھے۔

آرمی پبلک اسکول پر حملے سے 2 ماہ قبل پشاور میں ہی ایک اسکول پر دستی بم سے حملہ کیا گیا تھا، یکم اکتوبر 2014 کو بم حملے میں اسکول کی خاتون ٹیچر ہلاک اور 2 بچے زخمی ہوئے تھے۔

پاک افغان سرحد پر واقع کرم ایجنسی کے ہیڈ کوارٹر پارا چنار میں 18 نومبر 2014 کو ایک اسکول وین کو بم سے نشانہ بنایا گیا تھا، جس میں گاڑی کا ڈرائیور اور ایک بچہ ہلاک ہوا تھا۔

پشاور میں اسکول پر حملے کے بعد دیگر شہروں میں بھی حملے کیے۔

3 فروری 2015 کو کراچی میں گلشن اقبال کے ایک بڑے نجی اسکول کے قریب دستی بم پھینک کر دھماکا کیا گیا البتہ دھماکا صبح سویرے کیا گیا اس وقت اسکول میں کوئی موجود نہیں تھا، حملہ آور دستی بم کے ساتھ دھمکی آمیز خط بھی پھینک کر گئے تھے۔

اس دستی بم کے حملے کے ایک ماہ بعد مارچ میں کراچی میں لڑکیوں کے ایک اسکول کی دیوار کے ساتھ نصب بم دھماکا ہوا البتہ اتوار کا روز ہونے کی وجہ سے اسکول خالی تھا، دھماکے سے صرف اسکول کی دیوار کو نقصان پہنچا تھا۔

بعد ازاں مارچ 2015 میں کراچی کے ایک اور اسکول پر دستی بم سے حملہ کیا گیا، اس دھماکے میں بھی خوش قسمتی سے کسی قسم کا نقصان نہیں ہوا البتہ حملہ آوروں نے اسکول بند کرنے کے لیے دھمکی آمیز خط پھینکا تھا۔

تین ماہ قبل 29 اکتوبر 2015 کو خیبر پختونخوا میں چارسدہ میں شبقدر کے علاقے میں 2 سرکاری اسکولوں کے سامنے نامعلوم افراد نے فائرنگ کی، ان اسکولوں میں لڑکیوں کا اسکول بھی شامل تھا، البتہ اس فائرنگ سے کوئی ہلاک یا زخمی نہیں ہوا تھا۔

دو ماہ پہلے 3 نومبر 2015 کو خیبر پختونخوا میں ہی نوشہرہ میں 3 حملہ آوروں نے ایک گرلز اسکول کے باہر ہوائی فائرنگ کی تھی، خیبر پختونخوا میں اسکولوں کے باہر فائرنگ کرنے والے افراد کو پولیس گرفتار کرنے میں ناکام رہی۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں