سلمان، آصف کی واپسی! ایک اہم سوال
اسپاٹ فکسنگ میں پانچ، پانچ سال کی پابندیاں بھگتنے کے بعد محمد آصف اور سلمان بٹ بالآخر ڈومیسٹک کرکٹ میں واپس آ گئے ہیں، اور دونوں نے کیا ہی شاندار واپسی کی ہے۔ سلمان بٹ نے اپنے پہلے ہی مقابلے میں سنچری بنائی اور محمد آصف نے دو وکٹیں حاصل کیں، جس میں پہلے ہی اوور میں حاصل کیا گیا شکار بھی شامل تھا۔
ان دونوں کی کارکردگی نے کئی سوالات اٹھا دیے ہیں ، جیسا کہ کیا پاکستان کے اوپننگ مسائل کو حل کرنے کے لیے 31 سالہ سلمان بٹ کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں؟ یا پھر گیندبازی میں درپیش مشکلات کو محمد آصف کی موجودگی آسان بنائے گی؟ ان سوالوں کے جواب دیگر کئی سوالوں کو جنم دے گا۔
جب عالمی کپ 2003ء میں پاکستان کی قبل از وقت شکست کے بعد سلمان بٹ قومی منظر نامے پر آئے تھے تو زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ وہ پاکستان کے اوپننگ مسائل کا دیرپا حل بن گئے۔ ایک انتہائی پڑھے لکھے کھلاڑی، جن کی موجودگی قیادت کے مسئلے کو بھی بڑے عرصے کے لیے حل کرتی دکھائی دے رہی تھی، بالآخر بدعنوانی کی بھینٹ چڑھ گئے۔
دوسری جانب محمد آصف جیسا باصلاحیت گیندباز، شاید پاکستان کو وسیم اکرم اور وقار یونس کے بعد ان کے پائے کا کوئی باؤلر نہیں ملا۔ شعیب اختر جیسی رفتار تو نہیں تھی لیکن گیند اتنی نپی تلی پھینکتے تھے کہ انہیں 'پاکستانی گلین میک گرا' کہا جانے لگا۔ لیکن شہرت انہیں ہضم نہیں ہوئی، وہ اس کے بہاؤ کے ساتھ بہتے چلے گئے۔ ایک کے بعد دوسرا اسکینڈل، ایک تنازع کے بعد دوسرا ہنگامہ، یہاں تک کہ جب اسپاٹ فکسنگ میں دھر لیے گئے تو کوئی ان سے ہمدردی کرنے والا بھی نہیں رہا۔
سلمان بٹ اور محمد آصف کے ساتھ ساتھ اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کے تیسرے کردار محمد عامر نے جرم برابر کا ہی کیا، سزا بھی اتنی ہی پائی لیکن چند وجوہات کی بنیاد پر انیںے ابتدا ہی سے ہمدردی حاصل رہی۔ ایک تو عمر، بوقت جرم ان کی عمر صرف 17 سال تھی، دوسرا صلاحیت۔ اس بھیانک دن سے قبل اسی ٹیسٹ میں عامر نے انگلستان کی بیٹنگ لائن کی دھجیاں بکھیر دی تھیں لیکن ایک ہی دن میں ان کے عہد کا خاتمہ ہوگیا۔