انگلش کے بغیر آپ مستحق نہیں
یوں لگتا ہے کہ ہمارے دکھ درد اور ہماری کہانیاں تب تک کوئی معنیٰ نہیں رکھتیں، جب تک ہم یہ سب کچھ رواں انگریزی میں دنیا کو نہ سنائیں.
سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو گردش کر رہی ہے جس میں ایک بے گھر آدمی رواں انگریزی زبان میں ملازمت کے لیے التجا کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہونے والے دھوکے، اور اس کی بد قسمتی اور نقصان کی داستان دل خراش ہے۔ اداکار احسن خان کی وجہ سے یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر پھیل گئی اور جلد ہی اس شخص کو نوکری بھی مل گئی۔
اس کی کہانی کئی دیگر لوگوں کی کہانیوں کی طرح ہی ہے، لیکن وہ خوش نصیب رہا کیونکہ اس نے اپنی کہانی اس زبان میں بیان کی جسے ملک کی اشرافیہ نہایت سنجیدگی سے لیتی ہے۔
پنجابی، سندھی، پشتو، اردو اور بلوچی زبان کے ناقابل فہم شور میں نہ جانے کتنی ایسی کہانیاں سنے جانے کی طلبگار ہیں۔
غربت کی لکیر کے نیچے گزارنے والے لوگوں کی بڑی تعداد کے لیے ہمارے پاس مساوی ہمدردی نہیں ہے، اسی لیے ہم اپنی خیر خواہی کے لیے ترجیح ان لوگوں کو دیتے ہیں جو ہمیں خود جیسے محسوس ہوتے ہیں، یعنی ایک ‘نارمل انسان’ جیسے۔
یورپ کے گرد گھومنے والی دنیا میں ایسے لوگوں کے لیے بہت جگہ ہے جو اپنی اصل شناخت کو ایک طرف رکھ کر کسی اوسط مغربی شخص سے مطابقت رکھنے والے انداز کو اپناتے ہیں.
انتہائی پیچیدہ لوک دھن بجانے والے میراثی یا پنجابی گیت گنگنانے والے ایک غریب مزدور کو اتنی بین الاقوامی شہرت حاصل نہیں ہوسکتی جتنی ان دو پاکستانی بہنوں کو ملی جنہوں نے کیمرا پر جسٹن بیبر کا گانا گایا تھا۔ میں ثانیہ اور مقدس کا ذکر کر رہا ہوں جنہیں 2015 کی ابتدا میں ‘بے بی’ گانا گانے پر عالمی میڈیا میں کافی کوریج دی گئی تھی۔
ایحام احمد کی مثال لیجیے، جو کہ شام کا پیانو نواز ہے اور جسے شام اور فلسطین کے جنگ سے متاثرہ خاندانوں کی مناسبت سے بجائے گئے پیانو نے دنیا بھر میں پہچان دلائی۔ کیا اسے یہ نام اور شہرت شام کا روایتی ساز 'قانون' بجانے سے ملتی، جس کی آواز شاید مغربی میڈیا کو لبھا نہ پاتی؟
میرا قطعی طور پر یہ مقصد نہیں کہ پاکستانی بہنیں اور شامی پیانو نواز شہرت کے حقدار نہیں؛ اس میں کوئی شک نہیں یہ سب اپنے فن میں ماہر ہیں۔ نہ ہی میں یہ کہہ رہا ہوں کہ انگریزی بولنے والے بے گھر آدمی کو اتنی توجہ نہیں ملنی چاہیے۔ مگر یہ لوگ ان لوگوں سے ضرور مشابہت رکھتے ہیں جن میں ان کے لیے کچھ کرنے کی قوت موجود ہے۔
ان لوگوں میں عالمی برادری اور اس کے ساتھ ان مقامی لوگوں کے لیے زیادہ کشش ہے جو جدت، طبقے اور بہتر تعلیم کے ثبوت کے طور پر ہر طرح کی مغربی روایات اپنانے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔
کسی بھی میڈیا ادارے نے اس بے گھر آدمی کا نام جاننے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی، بلکہ اسے ‘دریافت’ کرنے والے اداکار ماڈل کا نام احسن خان کا نام ہر جگہ نمایاں رہا۔
یہی کہانی اگر انہیں پنجابی میں سنائی جاتی تو شاید وہ متاثر نہ ہوتے، اور ان کی کہانی ہمارے ملک میں موجود لاتعداد فقیروں جیسی ہی محسوس ہوتی جو ممکنہ طور پر ہماری ہمدردی کے کم مستحق ہیں۔
ایک اوسط پاکستانی روز اپنے گھر جاتے ہوئے کتنے بے گھر لوگوں کو دھتکارتا ہے اور پھر لیپ ٹاپ پر انگریزی بولنے والے ایک بے گھر آدمی کی دکھ بھری کہانی سنتا ہے؟
اس بے نام شخص کا تعلق بھی اسی پسماندہ برادری سے ہے جسے اشرافیہ اور متوسط طبقہ سست، نشہ کرنے والے اور گداگر مافیا کہتے ہیں۔
میں شکایت نہیں کر رہا مگر ہمدردی کا یہ طوفان کہاں سے آیا؟
کیونکہ ذہن کو اس خیال سے جھٹکا لگا کہ ایک شخص جو اعلیٰ طبقے کے پاکستانیوں کا اسٹیٹس سمبل سمجھی جانے والی انگریزی زبان بول رہا ہے، اسے نچلے طبقے کے میلے لوگوں کے درمیان نہیں رہنا چاہیے۔
ہم بھلے ہی اس بات پر متفق ہوں کہ کسی کو بھی بے گھر ہونے کی ذلت نہ اٹھانی پڑے لیکن چند مخصوص لوگوں کو زیادہ کا حقدار سمجھتے ہیں۔
وہ چند مخصوص لوگ ہم ہیں اور ہم جیسے لوگ ہیں۔
فراز طلعت پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں۔ وہ سائنس اور مختلف سماجی مسائل پر لکھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ FarazTalat@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔