ڈی ایچ اے فراڈ کیس: تحقیقات کے لیے گرین سگنل
اسلام آباد: آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ڈی ایچ اے فراڈ کیس میں ملوث سابق فوجی افسران اور سویلینز کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا گرین سگنل دے دیا۔
قومی احتساب بیورو (نیب) کے ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ ادارے نے 6 ماہ قبل سامنے آنے والے 62 ارب کے ڈی ایچ اے فراڈ کیس کے سلسلے میں کارروائی شروع کردی ہے۔
نیب کے اعلیٰ عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے چیئرمین نیب قمر زمان چوہدری کو گزشتہ سال جولائی میں پیغام بھجوایا کہ ڈی ایچ اے فراڈ کیس میں کسی کے ساتھ رعایت نہ کی جائے اور جو کوئی بھی اس میں ملوث پایا جائے اسے قانون کے مطابق سزا دی جائے۔
بحریہ ٹاؤن کے سربراہ ملک ریاض، سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے بھائیوں اور چند ڈی ایچ اے عہدیداران کے خلاف نیب پہلے ہی تحقیقات کا آغاز کرچکی ہے، جبکہ اب روات کے قریب ڈی ایچ اے ویلی کی تعمیر میں بے ضابطگیوں کی تحقیقات کا بھی آغاز کردیا گیا ہے۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے رابطہ کرنے پر اس حوالے سے کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کیا، تاہم یہ بات پہلے ہی سامنے آچکی ہے کہ ڈی ایچ اے نے معاملے کی تحقیقات کے لیے نیب میں باضابطہ طور پر شکایت درج کرائی تھی۔
واضح رہے کہ ڈی ایچ اے میں فراڈ کی تحقیقات کے لیے ستمبر 2010 میں لیفٹیننٹ کرنل (ر) محمد طارق کمال کی جانب سے شکایت درج کرائی گئی تھی، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ ڈی ایچ اے ویلی جس زمین پر قائم کی گئی ہے وہ مجوزہ دادھوچہ ڈیم کی تعمیر کے لیے مختص کی گئی تھی۔
13 جون 2011 کو الزام کی تصدیق کے بعد نیب نے 3 جولائی 2012 کو تحقیقات کا آغاز کردیا تھا۔
جنرل کیانی کے بھائیوں کا ردعمل
بریگیڈیئر(ر) امجد پرویز کیانی نے تمام معاملے کے حوالے سے اپنے بیان میں دعویٰ کیا کہ سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کا اپنے بھائیوں کے اقدامات اور کاروباری مفادات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے بھائی کامران کیانی، جو ڈی ایچ اے سٹی لاہور کے فراڈ کیس کے ملزم ہیں، ڈی ایچ اے لاہور اور ایڈن پرائیوٹ کے مشترکہ منصوبے میں پارٹنر نہیں تھے، اور نہ ہی انہوں نے ایڈن سٹی کے حق میں دونوں پارٹیز کے درمیان ڈیل میں کوئی کردار ادا کیا۔
امجد پرویز کیانی نے مزید کہا کہ کامران کیانی کا 2009 میں ڈی ایچ اے اسلام آباد اور ایلیشیم کمپنی کے درمیان طے پانے والے مشترکہ منصوبے سے بھی کوئی تعلق نہیں۔
یہ خبر 11 جنوری 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔