اعصام الحق پاکستان ٹینس کے مستقبل سے ناامید
عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کرنے والے ٹینس اسٹار اعصام الحق نے اے ٹی پی کے 11 ڈبلز ٹائٹل، ماسٹرز 1000 فائنلز ڈبلز کے دو مقابلے اور سنگلز میں 16 چیلنجرز اور فیوچر فائنلز اپنے نام کیے۔
تاہم ان کے کیریئر کا سب سے یادگار لمحہ 2010 کا یو ایس اوپن ڈبلز فائنل تھا جب اعصام اور روہن بوپنا کی ہندوستان اور پاکستان کی اس جوڑی کا مقابلہ امریکی برائن برادرز سے ہوا۔ اس میچ میں انہیں سخت مقابلے کے بعد شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن دونوں عالمی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا۔
اس واقعے کو اب پانچ سال گزر چکے ہیں اور افسوس کی بات یہ پاکستان اس دوران عالمی سطح پر ٹینس میں کوئی مقام حاصل نہ کر سکا، خود اعصام کا کہنا ہے کہ اس وقت انہیں اور ان کے ڈیوس کپ پارٹنر عقیل خان کا ملک میں کوئی متبادل نہیں جبکہ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ دونوں کھلاڑی 36 سال کے ہو چکے ہیں اور زیادہ عرصے تک عالمی مقابلوں میں ملک کی نمائندگی نہ کر سکیں گے۔
ڈان سے خصوصی گفتگو میں اعصام نے ملک میں ٹینس کے کھیل کی صورتحال، ثانیہ مرزا کے ساتھ کھیلنے کے امکانات اور ڈبلز مقابلے میں راجر فیڈرر کو شکست دینے کے یادگار لمحات پر اظہار خیال کیا۔
سوال: موجودہ صورتحال میں آپ ٹینس میں پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے کس حد تک پرامید ہیں؟
بدقسمتی سے مجھے اس وقت تو ایسا کھلاڑی نظر نہیں آرہا جو مستقبل میں میری طرح بین الاقوامی ٹینس میں پاکستان کی نمائندگی کرسکے اور طویل عرصے کھیل سکے۔ ڈیوس کپ سطح پر بھی میرے اور عقیل خان کے بعد کوئی متبادل نظر نہیں آرہا۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حکومتی یا فیڈریشن کی سطح پرایسے اقدامات نہیں کیے جاسکے کہ ٹینس میں کوئی آگے بڑھے، اب فیڈریشن میں نئے لوگ آئے ہیں امید کرتا ہوں کہ اب کوئی بہتر منصوبہ بندی کرسکیں، اگر ابھی سے محنت شروع کی جائے تو پانچ یا سات سال بعد ہی کوئی کھلاڑی ابھر کر سامنے آ سکے گا۔
سوال: ہمسایہ ملک ہندوستان نے ٹینس میں کئی مشہور کھلاڑی پیدا کیے، ہندوستان کے مقابلے میں پاکستان کے ٹینس میں پیچھے رہنے کی بنیادی وجہ کیا ہے؟
پاکستان میں ٹینس کا سرکٹ زیادہ وسیع نہیں لیکن تشویشناک بات یہ ہے کہ جو کھلاڑی ملکی سطح پر اچھا کھیل کر تیار ہوتے ہیں وہ بعد میں غیر ملکی یونیورسٹیوں میں کھیلنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ٹینس کی بنیاد پر اسکالر شپ لے کر وہ امریکا جاتے ہیں اور کھیل کی پروفیشنل سطح سے دور ہوجاتے ہیں، جو درست نہیں۔ اس دوران جو کھلاڑی ڈومیسٹک سطح پر تیار ہوتے ہیں ان کا بھی پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔