پاکستان

قبائلی نوجوان کی سزائے موت پشاورہائیکورٹ میں چیلنج

فوجی عدالت سے سزائے موت پانے والا مہمند ایجنسی کا رہائشی عمران 2008 سے سیکیورٹی اداروں کی حراست میں ہے،بھائی کا دعویٰ

پشاور: فوجی عدالت کی جانب سے دہشت گردی کے الزام میں سزائے موت پانے والے مہمند ایجنسی کے ایک قبائلی نوجوان کی سزا کو پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا گیا.

مجرم قرار دیئے جانے والے محمد عمران کے بھائی محمد فیض کی جانب سے پشاور ہائی کورٹ میں دائر پٹیشن میں 'فوجی عدالت کی کارروائی کو غیر قانونی اور کسی مجاز اتھارٹی کے بغیر قرار دیتے ہوئے‘ سزا کو کالعدم قرار دینے کی درخواست بھی کی گئی ہے۔

درخواست گزار کے وکیل عارف جان کی جانب سے دائر کی جانے والی پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ فرد لاپتہ افراد میں شامل ہے اور 2008 سے سیکیورٹی فورسز کی حراست میں ہے۔

درخواست گزار محمد فیض کا کہنا ہے کہ مقدمے میں منصفانہ سماعت کے مطلوبہ معیار کو پورا نہیں کیا گیا، حتیٰ تک کہ ملزم کو خود بھی اپنے پر لگائے جانے والے الزامات کے حوالے سے معلومات فراہم نہیں کی گئیں.

یہ بھی پڑھیں: صابر شاہ کیس: فوجی عدالت کا فیصلہ چیلنج

محمد فیض نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ وہ مذکورہ پٹیشن پر حتمی فیصلے تک ملزم کی سزا کو کالعدم قرار دے۔

اس وقت ملزم کو لوئردیر کی ضلعی جیل تیمرگرہ میں رکھا گیا ہے۔

عدالت سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ سیکرٹیری دفاع اور سیکریٹری داخلہ کو کیس کا مذکورہ ریکارڈ پیش کرنے کا حکم دیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ متعلقہ حکام نے ’نام نہاد ٹرائل کورٹ‘ کے فیصلے کی کاپی دینے سے انکار کیا تھا۔

درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ ان کے بھائی نے کراچی میں جامعہ بنوریہ میں چار سال دینی تعلیم حاصل کرنے سے قبل اسلامیہ کالج پشاور سے اپنا انٹر مکمل کیا تھا۔

محمد فیض کا دعویٰ ہے کہ وہ اور ان کا بھائی مہمند ایجنسی کے مستقل رہائشی ہیں اور اس وقت ضلع مردان میں مقیم ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ان کے بھائی کو 2008 میں حراست میں لیا گیا تھا جس کے باعث گذشتہ کئی سالوں سے وہ ان سے رابطہ نہیں کرسکے.

مزید پڑھیں: جنرل راحیل نے 9 دہشت گردوں کی سزائے موت کی توثیق کر دی

خیال رہے کہ یکم جنوری 2016 کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) نے اعلان کیا تھا کہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے فوجی عدالت کی جانب سے سزائے موت پانے والے 9 ’انتہائی خطرناک دہشت گردوں‘ کی سزا پر عمل درآمد کے لیے دستخط کردیئے ہیں۔

محمد عمران کے حوالے سے آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ’وہ تحریک طالبان پاکستان کا ایک اہم سرگرم کارکن ہے اور دہشت گردی کی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں پر حملے میں ملوث ہے، جس میں متعدد شہری اور فوجی ہلاک اور زخمی ہوئے‘۔

آئی ایس پی آر کے مطابق ’عمران نے ٹرائل کورٹ کے مجسٹریٹ کے سامنے اپنے جرائم کا اعتراف کیا تھا اور اسے چار الزامات کے تحت سزائے موت سنائی گئی‘۔

یہ خبر 5 جنوری 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔