پاکستان

شاہد حامد قتل کیس: بابر غوری کو 'کلین چٹ'

جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے 'کیس منطقی انجام کو پہنچنے کے سبب' اسے دوبارہ نہ کھولنے کی تجویز دی ہے

کراچی: صولت مرزا کی جانب سے مارچ میں پھانسی سے چند گھنٹوں قبل شاہد حامد کیس میں متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما بابر غوری کا نام لیے جانے کے باوجود جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم (جے آئی ٹی) نے 'کیس کے منطقی انجام کو پہنچنے کے سبب' اسے دوبارہ نہ کھولنے کی تجویز دی ہے۔

صولت مرزا کو 12 مئی 2015، بلوچستان کی مچھ جیل میں پھانسی دی گئی تھی۔

انہیں 1999 میں انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے جولائی 1997 میں کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کے چیف شاہد حامد کے قتل کا مجرم ٹھرایا تھا۔

پھانسی سے محض چند گھنٹوں قبل متعدد ٹی وی چینلز پر نشر ہونے والی صولت مرزا کے ایک وڈیو بیان میں لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کے لیے ایک جے آئی ٹی تشکیل دی گئی تھی۔

ویڈیو بیان اور بعد میں جے آئی ٹی کے سامنے بھی صولت مرزا نے شاہد حامد قتل کیس میں بابر غوری کے کردار کا ذکر کیا تھا۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ متحدہ کے رہنما نے قتل کے لیے انہیں ہتھیار فراہم کیے تھے۔

صولت مرزا نے سات رکنی جے آئی ٹی کو یہ نہیں بتایا کہ یہ ویڈیو بیان مچھ جیل میں کس نے ریکارڈ کیا اور جے آئی ٹی نے بھی یہ جاننے کی زیادہ کوشش نہیں کی۔ تاہم ان سے بابر غوری کا نام لینے پر پوچھ گچھ کی گئی۔

ڈان کے پاس موجود جے آئی ٹی رپورٹ کی ایک کاپی میں کہا گیا کہ جے آئی ٹی نے صولت مرزا سے دریافت کیا کہ انہوں نے پولیس اور عدالت سے سامنے بیان میں بابر غوری کا ذکر نہیں کیا تو اب کیوں وہ اس موقع پر ان کا نام کیوں لے رہے ہیں؟

جے آئی ٹی نے اپنی سفارشات میں کہا کہ شاہد حامد کیس پہلے ہی اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکا ہے اور صولت مرزا کی جانب سے جن ملزموں کے نام بتائے گئے، بابر غوری کو چھوڑ کر باقی سب نام ماضی میں ان کے بیانات میں پہلے ہی موجود تھے۔

’مقدمے، عدالتی فیصلے اور 1998 میں گرفتاری کے بعد پولیس، مجسٹریٹ اور بعد میں اِس جے آئی ٹی کے سامنے صولت مرزا کے بیانات کے بعد جے آئی ٹی سمجھتی ہے کہ بابر غوری کے ملوث ہونے پر مبنی صولت کے آخری بیان کو بھرپور ٹھوس شواہد کا سہارا چاہیے‘۔

تاہم، جے آئی ٹی نے حکومت کو تجویز دی کہ وہ کراچی میں سیکنڈری ایجوکیشن بورڈ کے چیئرمین اسماعیل میمن کے سترہ سال قبل(1998) میں سولجر بازار میں قتل کا کیس دوبارہ کھولے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ’چونکہ صولت مرزا نے اسماعیل میمن کے قتل اور اس کی منصوبہ بندی میں ملوث قاتلوں کے نام ظاہر کر دیے ہیں، لہذا جے آئی ٹی متعلقہ ایف آئی آر نمبر 98/305 کو دوبارہ کھولنے کی سفارش کرتی ہے‘۔

جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق، صولت نے تفتیش کاروں کو بتایا تھا کہ وہ خالد مقبول صدیقی، مسعود صدیقی، سہیل ڈی سی، کامران عرف کامی اور واسع جلیل کے ساتھ بیٹھے تھے، جب واسع جلیل نے سہیل اور کامران کو ہدایت کی کہ اسماعیل میمن کو قتل کر دیا جائے۔

خالد مقبول صدیقی موجودہ قومی اسمبلی کے رکن جبکہ واسع جلیل کالعدم گلشن اقبال ٹاؤن کے سابق ناظم رہ چکے ہیں۔

جے آئی ٹی نے جیل میں شاہانہ طرز زندگی سے متعلق صولت مرزا کے انکشافات کی روشنی میں تجویز دی کہ جیل اصلاحات کیلئے ایک طاقت ور کمیشن بنایا جائے تاکہ جیلوں میں صحت مندانہ ماحول، چوبیس گھنٹے موثر نگرانی اور احتساب کا نظام یقینی بنایا جا سکے۔

جے آئی ٹی ارکان نے سیاسی شخصیات کی جانب سے ملزم اور مجرموں کے حق میں قانونی نظام اور پولیس کے مبینہ غلط استعمال پر افسوس ظاہر کیا۔

جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق، صولت نے خدمت خلق فاؤنڈیشن سے متعلق جو انکشافات کیے وہ چونکا دینے والے ہیں۔

جے آئی ٹی نے حکام پر زور دیا کہ کسی بھی سیاسی، مذہبی و سیاسی اور مذہبی پارٹی سے تعلق رکھنے والی سماجی بہبود کے تنظیموں کی جامع سکروٹنی کا عمل شروع کیا جائے۔

یہ خبر یکم جنوری 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی.


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں.