شاہ بندر، جس کی ویرانی پر زوال نہیں
ہم جب تاریخ کی کتابوں کا مطالعہ کر رہے ہوتے ہیں تو ذہن کے آسمان پر اندر کی کیفیتوں کی عجیب و غریب شبیہیں بنتی جاتی ہیں۔ کہیں پر بادشاہ کا دربار لگا ہوا ہے اور فیصلے سنائے جا رہے ہیں۔ کہیں پر شہروں کے بازاروں میں لوگوں کی چہل پہل ہے۔ کہیں محلاتی سازشیں اپنے عروج پر نظر آتی ہیں تو کہیں میدانِ جنگ جنگجوؤں کے خون سے سرخ ہوتے جاتے ہیں۔
کہیں راستوں پر بیوپاریوں کے قافلے ہیں جو اونٹوں کی قطاروں پر سامان لادے ایک شہر سے دوسرے شہر جا رہے ہیں۔ پھر وہ بندرگاہیں بھی ہیں جو نہ فقط دوسرے ملکوں سے آئے ہوئے سامان کی خرید و فروخت کرتے ہیں بلکہ علم و فضل کے بھی یہ دروازے ہیں جہاں سے بڑے بڑے عالم، فاضل، محقق اور تخلیق کار نئی زمین پر قدم رکھتے ہیں اور اپنی اپنی تخلیقات اور تحقیق کو نئی جہتیں دیتے ہیں۔ پھر ہمیں وہ سلطنتیں بھی دکھائی دے جاتی ہیں جن کے نصیبوں میں سکھ کی سانسیں لینے کے لیے بہت ہی قلیل عرصہ تحریر کیا گیا مگر دکھ اور ویرانیوں کے لیے ساری عمر رقم کر دی گئی۔
ٹھٹھہ سے آپ اگر سجاول کے شہر آئیں اور پھر شہر سے جنوب کی طرف نکلتا ہوا سیدھا راستہ لے لیں جو آپ کو سندھ کے ایک چھوٹے سے مگر مصروف اور لوگوں سے بھری ہوئی گلیوں اور راستوں والے شہر چوہڑ جمالی لے آئے گا۔ یہاں سے مشرق کی طرف شاہ یقیق اور جلالی بابا کی مشہور درگاہیں ہیں لیکن ہم شہر سے جنوب کی طرف جانے والے راستے سے جنوب کی طرف چلیں گے۔
آپ کچھ کلومیٹر جنوب کی طرف سفر کریں گے تو مشرق کی طرف کچھ پہاڑیاں اچانک سے آپ کو نظر آنے لگتی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ابھی ابھی اس زمین پر اگی ہیں۔ پہاڑیوں کا یہ سلسلہ آپ کے ساتھ کچھ زیادہ نہیں چلتا۔ کچھ کلومیٹر کے بعد ان کا حجم کم ہو کر چھوٹا ہوتا جاتا ہے اور بالآخر یہ پہاڑی سلسلہ گم ہوجاتا ہے۔
چوہڑ جمالی شہر سے تقریباً اٹھارہ کلومیٹر کے فاصلے پر میں جب پہنچا تو سمندر کی ایک کریک (کھاڑی) تھی جس پر کچھ چھوٹی بڑی کشتیاں لیٹی ہوئی تھیں کیونکہ بھاٹے (low tide) کا وقت تھا۔ بس پانی کی ایک لکیر تھی جس سے اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ اس کریک کا سمندر سے ابھی تک رشتہ جڑا ہوا ہے، وہی رشتہ جو 1759 میں اس وقت سندھ کے بادشاہ غلام شاہ کلہوڑو نے شاہ بندر کی تعمیر کر کے یہاں سے جوڑا تھا۔