2016 میں چھ ماحول دوست عادتیں اپنائیں
پنجاب کے خوبصورتی دیہاتی علاقوں کو دیکھنے کا بہترین وقت صبح سویرے کا ہے۔ میں نے یہ تجربہ کچھ ہی دن پہلے کیا؛ وسطی پنجاب کی سڑکوں پر چلنا، سورج کو طلوع ہوتے اور کھیتوں سے دھند و شبنم چھٹتے دیکھنا۔
یہ منظر خوبصورت تھا مگر پھر تبھی ایک قریبی فیکٹری سے اٹھنے والے سیاہ دھوئیں کے بادل نے سورج کو ڈھانپ لیا اور منظر کی خوبصورتی چرا لی۔
تیز بو سے بچنے کے لیے میں نے گاڑی کا شیشہ چڑھا لیا، لیکن پھر تبھی مجھے احساس ہوا کہ مجھ سمیت تمام انسان ہمارے ماحول کی تباہی میں کردار ادا کر رہے ہیں۔ سڑک پر گزرتی گاڑیاں، فیکٹریاں، کھیتوں میں کام کر رہے ٹریکٹر، سبھی کچھ غیر محسوس انداز میں انتہائی منفی اثر چھوڑ رہے ہیں۔
اور انسانوں اور انسانوں کی بنائی ہوئی ٹیکنالوجی کے آپس میں ملنے پر یہ اثرات ہر روز لاکھوں گنا بڑھ کر مرتب ہوتے ہیں۔ یہ کہہ کر اس بات کو مزید آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے کہ ماحول پر ایک شخص کا اثر خفیف یا برائے نام ہوتا ہے، پر اگر ہر شخص یہی کر رہا ہو تو؟
عالمی درجہء حرارت میں اضافے اور ماحولیات کو پہنچتا نقصان وہ سچائیاں ہیں جنہیں اب نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ 2015 آج تک کا ریکارڈ کیا گیا گرم ترین سال ہے۔ دھند اور دھوئیں کا امتزاج (اسموگ)، آلودہ پانی اور ملبہ وہ چیزیں ہیں جن سے شہروں میں رہنے والے لوگوں کا واسطہ روز پڑتا ہے، اور اب وسطی پنجاب کے کم آبادی والے علاقوں میں بھی آسمان صاف نہیں رہا۔
پڑھیے: ماحول کو بچانے کے لیے ٹیکس دیں
وہ لوگ جو اس مسئلے پر تشویش رکھتے ہیں اور حالات کی بہتری کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں، انہیں اس درپیش چیلنج سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ ہم سب مل کر بہت کچھ کر سکتے ہیں اور ایسی کئی تباہ کن عادات ہیں جنہیں تھوڑی کوشش کے ساتھ بدل کر ہم ایک مثبت تبدیلی کا آغاز کر سکتے ہیں۔
اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہمیں اپنے اقدامات کے ماحول پر اثرات کا کتنا بہتر اندازہ ہے۔ اس لیے ذیل میں نئے سال کے کچھ عہد دیے جا رہے ہیں جن پر عمل کر کے آپ ماحولیات بچانے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں، اور ساتھ ساتھ ہی ساتھ اپنے اخراجات بھی کم کر سکتے ہیں۔
سوئچ بند کر دیں
لائٹوں اور پنکھوں کے سوئچ جب بھی آپ کمرے سے نکلیں، جب بھی کمپیوٹر استعمال میں نہ ہو، جب بھی چارجر کچھ چارج نہ کر رہے ہوں، بند کر دیں۔ اس سے آپ کم بجلی استعمال کریں گے اور آپ کا بل کم آئے گا۔
بھلے ہی یہ سننے میں بہت سادہ بات لگتی ہو لیکن ہمیں خود سے پوچھنا چاہیے کہ ہم کتنی دفعہ ہم بجلی کی اشیاء صرف اس لیے چلتی چھوڑ دیتے ہیں کہ چھوڑو کون اٹھ کر بند کرے۔
پانی ضائع کرنا بند کریں
اس میں برش کرتے وقت یا صابن ملتے وقت نلکے بند کرنا، لیک ہوتے پائپ ٹھیک کروانا، غیر ضروری طور پر نہانے اور طویل نہانے سے گریز کرنا اور (شاید یہ آپ کے لیے حیرانی کی بات ہو) بوتل بند پانی نہ خریدنا شامل ہے۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ ایک پانی کی بوتل کی تیاری میں اس میں موجود پانی کی مقدار سے تین گنا زیادہ پانی استعمال ہوتا ہے؟ اس کے علاوہ پلاسٹک کی تیاری میں استعمال ہونے والے کیمیکلز کی وجہ سے یہ پانی استعمال کے قابل نہیں رہتا۔ اس لیے بوتلیں تیار کرنے کے مرحلے میں بے انتہا پانی ضائع ہوتا ہے، اور اگر آپ ابلا ہوا پانی استعمال کر سکتے ہیں، تو ایسا ضرور کریں۔
پلاسٹک کا استعمال کم کریں
پلاسٹک کی چیزیں مثلاً تھیلیاں، بوتلیں، ڈبے، ریپرز نے ہماری زندگیوں میں اپنی جگہ بنا لی ہے۔ پلاسٹک ہمارے لیے تو بہت آسانی پیدا کرتا ہے مگر یہ ماحولیات کے لیے انتہائی مضر ہے۔ ہر روز ٹنوں کے حساب سے پلاسٹک کی چیزیں پھینکی جاتی ہیں جو کچرے، دریاؤں، سمندروں، جنگلوں اور گٹروں تک جا پہنچتی ہیں۔
پڑھیے: پلاسٹک ماحول
پلاسٹک کی اشیاء کو ری سائیکل کیا جا سکتا ہے مگر ان کے استعمال کی رفتار ری سائیکلنگ سے زیادہ ہے، جبکہ انہیں دیگر کچرے کے ساتھ ملا کر پھینک دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ پلاسٹک حیاتیاتی طور پر ختم نہیں ہوتے۔ یہ سورج کی روشنی انہیں چھوٹے ذرات میں توڑ دیتی ہے مگر یہ پھر بھی ہمارے ماحول سے مکمل طور پر ختم نہیں ہوتے۔
ان کا استعمال چھوڑنا مشکل ہے مگر ناممکن نہیں۔ ہم کم از کم اتنا تو کر ہی سکتے ہیں کہ پلاسٹک کی تھیلیاں کم استعمال کریں اور جب بھی ممکن ہو پلاسٹک کے بجائے شیشے کے برتن استعمال کریں، اور پلاسٹک کے ڈبے یا برتن (کپ، پلیٹ وغیرہ) دوبارہ استعمال کریں۔
خریداری کی فہرست بنائیں
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم لوگ خریداری کے لیے جاتے ہیں مگر ہمارے ذہن میں واضح نہیں ہوتا کہ ہمیں کیا خریدنا ہے۔ نتیجتاً ہم اپنی ضرورت اور اپنے ارادے سے زیادہ اشیاء خرید کر گھر واپس لوٹتے ہیں۔ چمکدار چیزیں جو ہمیں پرکشش لگتی ہیں، فوراً خرید لی جاتی ہیں مگر اکثر الماریوں کے بھلا دیے گئے درازوں میں رکھ دی جاتی ہیں اور سالوں سال غیر استعمال شدہ رہنے کے بعد پھینک دی جاتی ہیں۔
اگر ہمیں اچھی طرح معلوم ہو کہ ہمیں کس چیز کی ضرورت ہے تو فضول خریداری سے بڑی حد تک بچا جا سکتا ہے۔ اس لیے ہمیشہ خریداری پر جانے سے قبل ایک فہرست تیار کر لینی چاہیے۔ اس کے نتیجے میں ہمارے گھروں میں چیزیں کم جمع ہوں گی، ہمارے بینک اکاؤنٹس میں پیسے بھی محفوظ رہیں گے اور ہمارا سیارہ بھی ہمارا شکرگزار ہوگا کہ ہم نے اس پر کچرے کے بوجھ میں اضافہ نہیں کیا۔
پراسس شدہ کھانوں سے پرہیز کریں
بدقسمتی سے اب پاکستان میں گھر کے پکے ہوئے کھانوں کی اہمیت کم ہوتی جا رہی ہے کیونکہ اب ہمارے پاس بے پناہ بین الاقوامی فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹس ہیں جبکہ ہمارے سپرمارکیٹس کے شیلفس میں پہلے سے زیادہ پراسس شدہ اور ڈبہ بند کھانے پائے جاتے ہیں۔
پڑھیے: قدرتی کھانے یا پیک شدہ کھانے؟
اس سے نہ صرف ہمارے بلز میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ ہماری کمر کے ناپ میں بھی۔ ہم کھانا ضائع کرتے ہیں جس سے صنعتی پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے اور کمپنیاں قدرتی وسائل کا مزید استعمال کرتی ہیں جس سے ماحولیات کو نقصان پہنچتا ہے۔
قدرت کے قریب آئیں
دھوپ ہماری صحت کے لیے اچھی ہے جبکہ برقی آلات سے دوری اور قدرت سے قربت بھی۔ ہمیں دنیا کو اپنے تمام حواس سے محسوس کرنا چاہیے، نہ کہ صرف ٹی وی اور کمپیوٹر اسکرینز سے۔ اس لیے ٹی وی کے سامنے سے اٹھیں اور پارک میں چہل قدمی کے لیے جائیں۔
کھڑکیاں کھول کر گھر میں دھوپ آنے دیں۔ اس سے آپ کے گھر میں تازہ ہوا بھی آئے گی جس سے گھر کی اندرونی آلودگی کم ہوگی جو کئی بیماریوں کی وجہ بنتی ہے۔
یہ وہ چند سادہ سی تراکیب ہیں جو دیکھنے میں تو بہت معمولی لگتی ہیں پر اگر ہم میں سے ہر شخص انہیں اپنا لے تو بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ آئیں پہلا قدم اٹھائیں اور اپنے چاہنے والوں کو بھی اس پر عمل کرنے کے لیے کہیں۔
اثناء علی کتابوں سے محبت کرتی ہیں، اور فری لانس کالم نگار ہیں۔
ان سے asna.ali90@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔