نقطہ نظر

جبری شادی کی ایک بھیانک داستان

ہم کیوں نہیں سمجھتے کہ ہم اپنے بچوں کے ساتھ رسوم و رواج کے نام پر کیا کر رہے ہیں؟

یہ ایسی گفتگو تھی جسے میں کبھی نہیں بھولوں گی۔

میں مریم کو ایک سال سے جانتی تھی جب میں نے جانا کہ کیسے اس نے اپنی زندگی سے ہاتھ اٹھا دیا تھا۔ دوسروں کی فکر کرنے والی اور سب کو محبتیں دینے والی اس لڑکی کی کہانی پر میں کبھی بھی یقین نہ کرتی اگر وہ میرے سامنے بیٹھ کر مجھے یہ سب خود نہ بتاتی۔

"یہ سب ایک بار پھر ہونے لگا ہے،" یہ اس نے تب کہا جب میں نے اس جمعرات کے دن اس سے پوچھا کہ وہ اتنی ناخوش اور اداس کیوں لگ رہی ہے۔

میں نے اس سے مزید استفسار کیا تو اس نے کہا "وہ میری ایسے شخص سے شادی کرنے لگے ہیں جسے نہ میں جانتی ہوں، نہ دیکھا ہے، اور نہ اس سے کبھی ملی ہوں۔" اپنی اتنی بہترین دوست کی اس بات کو سن کر سمجھنے میں مجھے کچھ لمحے لگے۔

اس کے بعد کے سوالات: ایسا کون کر رہا ہے؟ دوبارہ سے تمہارا کیا مطلب ہے؟ اور تمہارے ساتھ ایسا کوئی کیوں کرے گا؟

میں دیکھ سکتی تھی کہ وہ اپنے الفاظ محتاط انداز میں منتخب کر رہی ہے۔ شاید وہ یہ سب کچھ مجھ سے کہنا نہیں چاہتی تھی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ شدید پریشانی کی وجہ سے وہ مجھ سے کہے بغیر نہ رہ سکی۔ مگر کچھ بھی ہو، اس نے اپنی کہانی سنانی جاری رکھی اور جب وہ ایک کے بعد ایک خوفناک تفصیل مجھے بتاتی تو میرے لیے خود پر قابو رکھنا مشکل ہوجاتا۔

چھ سال قبل مریم کے والد نے اس کی شادی اپنے ایک قریبی دوست کے بزنس پارٹنر کے بیٹے سے کروا دی تھی۔ اس وقت وہ 17 سال کی ہونے والی تھی۔

"مجھے لگتا ہے کہ انہیں یقین تھا کہ وہ میرے لیے بہترین کر رہے ہیں۔" پر حقیقت میں یہ شادی مریم کے لیے بدترین ثابت ہوئی۔

میں جانتی تھی کہ وہ انتہائی باشرع خاندان سے تعلق رکھتی تھی جہاں پردے کی سخت پابندی تھی، یہاں تک کہ اکثر خاندانی پروگرامز میں بھی مرد اور عورتیں الگ الگ ہوا کرتے تھے، اس لیے میں نے اس سے یہ نہیں پوچھا کہ شادی سے پہلے اس کی اجازت لی گئی تھی یا نہیں، کیونکہ میں جانتی تھی کہ نہیں لی گئی تھی، اسے صرف بتایا گیا تھا۔

تو کیا ہم اسے زبردستی کی شادی نہیں قرار دے سکتے؟ لیکن چلیں، پہلے اسے اپنی کہانی مکمل کرنے دیں۔

پڑھیے: سندھ میں 1261 خواتین جبری شادی کیلئے اغوا

اس نے مجھے بتایا کہ اس نے پہلی بار لڑکے کو نکاح کے بعد دیکھا۔ اور اپنے شریکِ حیات کو پہلی بار دیکھنے پر اسے شدید بے چینی محسوس ہوئی، یا شاید خوف بھی محسوس ہوا۔

افسوس کی بات ہے کہ شادی کے چھ ماہ کے اندر ہی مریم کے والد انتقال کر گئے۔ اس وقت مریم تین ماہ کی حاملہ تھی۔

اس کا خاوند بدزبان تو تھا ہی، مگر اس کے والد کے انتقال کے بعد اس نے مریم پر ہاتھ بھی اٹھانا شروع کر دیا، اور تشدد کا یہ سلسلہ تب رکا جب مریم کی ساس نے اس کے شوہر کو روکا کہ شاید مریم بیٹے کو جنم دینے والی ہے۔

اس نے اپنی مشکلات کا ذکر اپنی ماں سے کرنے کی کوشش کی لیکن مردوں کے معاشرے میں، اور خاص طور پر ایک قدامت پسند گھرانے سے تعلق رکھنے والی بیوہ کے لیے قدم اٹھانا آسان نہیں ہوتا۔

"میری ماں مجھے ہمیشہ یہی کہتی کہ بچہ ہونے کا انتظار کرو، اور پھر دیکھنا اس کا رویہ بالکل بدل جائے گا، اور سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ انہوں نے مجھے یہ بات اتنی دفعہ کہی کہ مجھے اس پر یقین ہو گیا۔"

تبدیلی آئی، مگر بد سے بدترین کی جانب۔

مریم نے ایک صحتمند لڑکے کو جنم دیا۔ اسے اس کا انعام ملا: اس کے خاوند نے ایک ماہ تک اسے بے رحمی سے نہیں مارا پیٹا۔ مگر یہ وقت گزرنے کے بعد اس نے اپنی زندگی کے بھیانک ترین دن بھی دیکھے۔

گھر میں سب ہی یہ بات جانتے تھے، ساس، سسر، دیور، ملازم، سب۔ وہ مریم کو چھوٹی چھوٹی باتوں، جیسے پانی کے زیادہ ٹھنڈا یا گرم ہونے پر بھی مارتا، اور سب کے سامنے ہاتھ اٹھانے سے بھی نہ جھجھکتا۔ اور گھر کے سب افراد ایسے رہتے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔

صرف ایک دفعہ اس نے اپنی ساس کی آنکھوں میں ہمدردی دیکھی جب اس کے شوہر نے بچہ پیدا ہونے کے چھ ماہ بعد اسے سیڑھیوں سے دھکا دے دیا تھا۔

مریم ٹوٹی پسلیوں اور کئی فریکچرز کے ساتھ ہسپتال جا پہنچی۔ ظاہر ہے کہ سب کو یہ بتایا گیا کہ وہ پھسل گئی تھی۔ مریم اتنی ڈری ہوئی تھی کہ اس نے سچ بتانے کی کوشش نہیں کی۔

کسی طرح اس کی ماں نے اس کی ساس کو منا لیا اور وہ ہسپتال میں ایک ہفتہ گزارنے کے بعد مریم کو اپنے گھر لے آئیں۔

مزید پڑھیے: شکر کرو تم مر گئیں

گھر آنے کے بعد مریم کئی دن تک روئی۔ اب اس کا خاوند اسے اپنے بیٹے سے ملنے نہیں دیتا تھا۔ آخرکار دو ہفتے بعد وہ اپنے بیٹے کی محبت میں اس جہنم میں واپس لوٹ گئی، اور وہ اتنا ہی بھیانک تھا جیسا کہ اس نے سوچا تھا۔

دو ماہ بعد اس کی ہمت جواب دے گئی اور اس نے خودکشی کو ہی ذریعہ نجات سمجھا۔ مگر اس سے پہلے کہ وہ کوئی انتہائی اقدام اٹھاتی، اسے معلوم ہوا کہ وہ ایک بار پھر حاملہ ہے۔

مجھے یقین تھا کہ اس کے خاوند نے اسے زیادتی کا نشانہ بنایا ہوگا۔ میں نے سوچا کہ کیا مجھے یہ سوال پوچھنا چاہیے یا نہیں، مگر اس نے میرے بولنے سے پہلے ہی میرے ذہن کو پڑھ لیا اور اثبات میں جواب دیا۔ وہ اکثر اس پر تشدد کرنے سے پہلے یا بعد میں اپنی برتری کے اظہار کے طور پر زیادتی کا نشانہ بناتا۔

دوسرے حمل کے ابتدائی مہینوں میں ہی وہ مسلسل تشدد کی وجہ سے حمل گنوا بیٹھی۔ اس کے بعد اس کا بھائی، جو بمشکل 15 سال کا تھا، ایک دن اس کے خاوند کی غیر موجودگی میں گھر آیا اور اسے اپنے ساتھ لے گیا۔

طلاق کے تمام مطالبات کو اس کے خاوند نے مسترد کر دیا، اور آخرکار تسلیم کرنے پر شرط یہ لگائی کہ مریم اپنے بیٹے کو دوبارہ دیکھنے کے قانونی حق سے دستبردار ہوجائے گی۔

میں آپ کو بتا نہیں سکتی کہ یہ بتاتے ہوئے مریم کے تاثرات کیا تھے۔ مریم کے مطابق "ایسا لگا جیسے کسی نے میرا سینہ چیر کر دل نکال لیا ہو۔"

جانیے: جبری تبدیلی مذہب کی اصل دہشت

مریم کو اپنے بیٹے کو دیکھے ہوئے چار سال گزر چکے تھے۔ ایک بار پھر خاندان کا دباؤ بڑھنا شروع ہوا۔ اس کی چھوٹی بہن 16 سال کی ہونے والی تھی اور اس کی شادی کے لیے ضروری تھا کہ مریم طلاق یافتہ نہ کہلوائے۔

زندگی میں دوسری دفعہ مریم کی زبردستی شادی کروا دی گئی۔

اب دس سال بعد اس کے دوسرے خاوند سے چار بچے ہیں۔ اس کا دوسرا خاوند اسے مارتا تو نہیں، مگر اسے اس کا ماضی یاد دلا دلا کر اس میں تھوڑی بہت باقی بچ رہی ہمت اور عزتِ نفس کو ختم کر دیتا ہے۔

ہم کیوں نہیں سمجھتے کہ ہم اپنے بچوں کے ساتھ رسوم و رواج کے نام پر کیا کر رہے ہیں؟ کم عمری اور زبردستی کی شادیاں ہمارے معاشرے میں اب بھی غالب ہیں، اور یہ صرف دیہی علاقوں تک محدود نہیں جیسا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔

یہ چکر خطرناک ہے۔ ناخوش گھرانوں میں پروان چڑھنے والے بچوں کو تحفظ اور اعتماد کا وہ احساس نہیں مل پاتا جو ان کا حق ہونا چاہیے۔ اپنے باپوں کو اپنی ماؤں کو مارتا دیکھ کر ان پر زندگی بھر کے لیے منفی اثر باقی رہ جاتا ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ پورا معاشرہ ایسا ہے۔ مگر ایک ملک اور ایک قوم کے طور پر ہمیں ایسے اقدامات اٹھانے چاہیئں کہ آئندہ کوئی مریم ایسے حالات سے نہ گزرے۔

انگلش میں پڑھیں۔

ماہ نور شیرازی

ماہ نور شیرازی کراچی سے تعلق رکھنے والی صحافی ہیں جو جرائم، صحت، اور خواتین اور بچوں کے حقوق کی کوریج کرتی ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: mahnoorsherazee@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔