محمد عامر کی واپسی : فائدہ مند یا نقصان دہ؟
وہ ایک بے مثال اور غیر معمولی ٹیلنٹ ہے۔
محمد عامر جنہیں تقریباً ساڑھے چھ سال قبل کرکٹ میں اپنے آغاز کے ساتھ ہی خداد صلاحیتوں کا حامل قرار دیا گیا تھا، وہ ایک بار پھر پاکستان کرکٹ میں واپسی کیلئے پر تول رہے ہیں۔
چند ڈومیسٹک میچوں اور پھر نسبتاً مسابقتی مقابلے کی فضا کی حامل بنگلہ دیش پریمیئر لیگ میں محمد عامر ایسا تاثر قائم کر چکے ہیں کہ ان کے ناقدین بھی تعریف پر مجبور ہو گئے ہیں کیونکہ وہ خصوصاً ایک روزہ اور ٹی ٹوئنٹی میچوں میں اکیلے ہی پاکستان کی بے جان ٹیم میں ایک نئی روح پھونک سکتے ہیں۔
لیکن 2010 کے بدنام زمانہ لارڈز ٹیسٹ میں اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل میں سزا کاٹنے کے پانچ سال بعد ان کی کرکٹ میں دوسری اننگ اتنی آسان نہ ہو گی اور نہ ہی ان کی توقعات کے مطابق کچھ خوشگوار ہو گی۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے بھرپور اور انتہائی منظم حمایت کے بعد عامر شاید کچھ پُھول گئے ہوں لیکن انہیں اب بھی پانچ سال قبل ہونے والے اس دورہ انگلینڈ کے کم و بیش آدھے درجن کھلاڑیوں کے ساتھ ڈریسنگ کا دوبارہ حصہ بننے جیسے دشوار مسئلے کا سامنا ہے جن میں سے اکثر آج بھی لارڈز میں عامر اور ان کے ساتھی کھلاڑیوں محمد آصف اور سلمان بٹ کی اس دھوکا دہی کو یاد کر کے پیچ و تاب کھاتے ہوں گے۔
اظہر علی، محمد حفیظ، وہاب ریاض، شاہد آفریدی، اسد شفیق، شعیب ملک، عمر گل اور کئی دیگر کھلاڑی قصور وار نہ ہونے کے باوجود کئی ہفتوں اور مہینوں تک شرم سے اپنے سر جھکانے اور ذلت سہنے پر مجبور رہے اور ان تینوں کھلاڑیوں کے بدترین عمل میں حصے دار نہ ہونے کی صفائیاں پیش کرتے رہے۔
اگر وہ اب بھی اس بھیانک واقعے پر سوچ بچار کرتے ہیں تو یہ ایک قدرتی امر ہے کیونکہ اس کی وجہ سے انہیں ناصرف کرکٹ کھیلنے والی تمام ٹیموں کا غم و غصہ سہنا پڑا بلکہ ساتھ ساتھ یہ واقعہ ٹیم پر 'کرکٹ کے اچھوت' کا بدنما داغ بھی لگا گیا۔
اسی موضوع پر مزید خبریں
اظہر اور حفیظ کے خلاف کارروائی کا خدشہ
عامر دوسرا موقع ملنے کے مستحق، پی سی بی
عامر کی قومی ٹیم میں ممکنہ واپسی کے حوالے سے جاری تمام تر شور شرابے کے باوجود ماہرین کرکٹ نے اس بات کی نشاندہی میں ذرا بھی دیر نہ لگائی کہ اس اسکینڈل میں ملوث اپنے دونوں ساتھیوں کی طرح عامر نے بھی اسکینڈل منظر عام پر آنے کے بعد ابتدا میں اقبال جرم سے انکار کرتے ہوئے الزامات کا بھرپور مقابلہ کرنے کا عزم ظاہر کیا۔ تاہم انگلینڈ میں جیل کاٹنے کے بعد انہوں نے اقبال جرم کرنے کے ساتھ ساتھ انسداد کرپشن حکام سے بھرپور تعاون پر رضامندی ظاہر کی اور انہیں فوراً ہی مقدمے میں بطور گواہ شامل کر لیا گیا۔
یقیناً وہ شاندار فارم میں واپس آگئے ہیں اور بہت خوبصورت باؤلنگ کا مظاہرہ کر رہے ہیں لیکن یہ سب انہیں لارڈز میں کیے گئے غیر اخلاقی اعمال کے اثرات سے پاک نہیں کرسکتا۔ اس وقت تو بالکل نہیں۔ بہتر تو یہی ہو گا انہیں 2016 میں مکمل سیزن ڈومیسٹک کرکٹ کی سختیاں جھیلنے کا پابند بنایا جائے جس سے ممکنہ طور پر وہ بہت کچھ سیکھیں گے اور وہ قومی ٹیم میں زیادہ بہتر طریقے سے اپنی جگہ بنانے میں کامیاب رہیں گے۔
اس حقیت سے انکار نہیں آئی سی سی کی جانب سے رواں سال کے آغاز میں انہیں ابتدائی سطح کی کرکٹ کھیلنے کی اجازت ملنے کے بعد سے ماحول ان کے حق میں سازگار ہوتا جا رہا ہے، لیکن اس کے باوجود پی سی بی اور چند عاقبت نااندیش حضرات نہ جانے کیوں ان کی ٹیم واپسی کے حوالے سے انتہائی جلد بازی سے کام لیتے ہوئے نظر آ رہے ہیں جس کے سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ فاسٹ باؤلر اپنی 24ویں سالگرہ سے بھی چار ماہ کے فاصلے پر ہیں تو پھر اتنی جلد بازی کیوں؟
پی سی بی کی نظر میں نوجوان فاسٹ باؤلر کی عالمی کرکٹ میں فوری واپسی کے عوامل میں سے ایک ہے عامر کا نام نہاد 'بحالی کے پروگرام' بھی گزشتہ کچھ ہفتوں کے دوران باؤلر کے امپائر اور ساتھی کھلاڑیوں کے ساتھ جھگڑوں کی رپورٹس کو دیکھتے ہوئے مناسب معلوم نہیں ہوتا۔یہ بات بھی انتہائی افسوسناک ہے کہ پی سی بی میں موجود 'سمجھدار' لوگوں میں سے کسی کے پاس بھی اتنی عقل نہیں کہ وہ عامر کی واپسی کے حوالے سے بورڈ کے منصوبوں پر کھلاڑیوں کو اعتماد میں لے سکے جس سے یہ مسئلہ ہمیشہ کیلئے حل ہوجاتا۔
چیف سلیکٹر ہارون رشید اور ہیڈ کوچ وقار یونس سمیت عامر کی ازسرنو وکالت پر مصر حضرات یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ اسلام کسی جرم کی سزا پانے اور معافی مانگنے والے شخص سے درگزر کرنے کا درس دیتا ہے لیکن عامر کے معاملے میں ان کے یہ دعوے کھوکھلے ثابت ہوتے ہیں۔
اگر غلط سرگرمیوں میں ملوث کسی ڈاکٹر کا لائسنس منسوخ کیا جا سکتا ہے یا بھاری رشوت کے عوض اپنے ضمیر کا سودا کرنے والے جج پر تاحیات پابندی عائد کی جا سکتی ہے تو پھر ملک کو بیچنے کی کوشش کرنے والے کرکٹر کو کس طرح معاف کیا جا سکتا ہے؟۔
پانچ سال بعد پاکستان کرکٹ ٹیم میں شامل بہترین کرکٹرز اور مصباح کی شاندار قیادت کی بدولت اپنی ساکھ بحال کرتے ہوئے صف اول کی کرکٹ کھیلنے والی اقوام میں پھر سے شامل ہو چکی ہے جنہوں نے حالیہ برسوں میں ملک کی کھوئی ہوئی ساکھ کو کامیابی سے بحال کیا۔
مصباح کے بدترین ناقدین بھی انہیں پاکستان کرکٹ کا مسیحا مانتے ہیں جنہوں نے اپنے ساتھی کھلاڑیوں کی مدد اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل سے ہونے والے تباہی کا ڈٹ کا مقابلہ کرتے ہوئے اس کے اثرات کو زائل کر کے ایک پہاڑ سر کیا۔
آج مصباح کے کارناموں کی ناصرف تعریف کی جاتی ہے بلکہ وہ کرکٹ کے کھیل کی اقدار، قواعد و قوانین اور اس کی روح کو بھی برقرار رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں جو اس کھیل کا اصل حسن ہیں۔
داغدار محمد عامر واپس آ کر ان سب چیزوں کو ہوا میں اڑا کر مذاق بنا سکتے ہیں۔