’ایمرجنسی،جنرل کیانی کے مشورے سے لگائی تھی‘
اسلام آباد: سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے 3 نومبر 2007 کو ایمرجنسی کا اعلان پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور دیگر سینیئر سویلین اور فوجی تنظیمی ڈھانچے سے وابستہ افراد کی مشاورت کے بعد کیا تھا۔
خیال رہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی جانب سے دسمبر 2013 میں خصوصی عدالت میں غداری کے حوالے سے دائر کی جانے والی درخواست کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے ایمرجنسی کے معاملے میں جنرل کیانی کو بھی شامل کیا ہے۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کو بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے سابق فوجی آمر پرویز مشرف نے سابق فوجی سربراہ جنرل کیانی کو مرکزی ملزم قرار دیا.
انھوں نے کہا کہ جنرل کیانی 27 نومبر 2007 کو چیف آف آرمی اسٹاف مقرر ہوئے لیکن انھوں نے ایمرجنسی منسوخ نہیں کی۔ پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ ’اسے منسوخ نہ کرنے پر، جنرل کیانی بھی مرکزی ملزم ہیں‘۔
سابق فوجی آمر نے اس بات پر زور دیا کہ جنرل کیانی کے ساتھ ساتھ انھوں نے سینیئر سویلین اور فوجی رہنماؤں، جن میں وزیراعظم شوکت عزیز بھی شامل ہیں، سے مشاورت کی تھی۔
جنرل مشرف نے الزام لگایا کہ ’شوکت عزیز اور اُس وقت کے وزیر قانون زاہد حامد (جو موجودہ حکومت کی کابینہ کے رکن بھی ہیں)، جسٹس عبدالحمید ڈوگر اور پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے دیگر ججز، فوج کے تمام سینیئر اراکین خاص طور پر جنرل کیانی، تمام وزراء، تمام گورنرز، وفاقی اور صوبائی کابینہ کے اراکین، قومی اور تمام صوبائی اسمبلیوں کے اراکین، تمام سینیئر وفاقی اور صوبائی بیوروکریٹس ایمرجنسی کے نفاذ کے حوالے سے مرکزی ملزم، مددگار اور سہولت کار ہیں‘۔
سابق آمر نے انکشاف کیا ہے کہ انھوں نے ایمرجنسی کا اعلان اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز کی تجویز پر کیا تھا، لیکن اس کی سمری حیرت انگیز طور پر سرکاری ریکارڈ سے کچھ ’متعلقہ‘ لوگوں نے غائب کردی۔
انھوں نے کہا کہ ’سال 2008 میں میرے صدارت چھوڑنے کے بعد کچھ لوگوں نے ذاتی طور پر 3 نومبر 2007 کے حوالے سے بنائی جانے والی سمری کو ریکارڈ سے غائب کردیا ہے‘۔
ان کے بیان کے مطابق مذکورہ سمری 2013 میں سوشل میڈیا کے ذریعے عوام کے سامنے لائی گئی تھی۔
جنرل پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ جسٹس افتخار محمد چوہدری ’انصاف کی فراہمی کے نام پر قانون سازی اور ایگزیکٹو کے معاملات میں مداخلت کررہے تھے۔ 9 مارچ کے اقدام پر سپریم کورٹ میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور ان کے بیٹے کے خلاف دائر ریفرنس کے بعد وہ میرے ساتھ انتقام پر اتر آئے تھے، اس ریفرنس کا فیصلہ اب تک نہیں ہوا‘۔
جنرل مشرف نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے سپریم کورٹ کی جانب سے جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کو ’نیک نیتی‘ سے قبول کیا لیکن اس کے بعد صورت حال خراب ہوتی چلی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ’بدقسمتی سے، عدالتی فیصلوں کے تحت 61 ایسے دہشت گرد رہا کیے گئے، جنھوں نے کراچی، راولپنڈی، سرگودھا،خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں پناہ حاصل کر رکھی تھی‘، انھوں ںے مزید کہا کہ ’ایسے بہت سے مقامات تھے جہاں دہشت گردوں اور ان کے عزیزوں نے حکومت کے اختیارات کو چیلنج کیا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مقابلہ کیا‘۔
سابق آمر نے کہا کہ ’اُس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز نے 3 نومبر 2007 کو ایک خط بعنوان ’قومی سیکیورٹی کی صورت حال‘ کے ذریعے ملک میں جاری دہشت گردی، عسکریت پسندی اور انتہا پسندی کے حوالے سے مجھے آگاہ کیا اور عدلیہ کی جانب سے ان کے حدود سے تجاوز کرنے کے بڑھتے ہوئے عام خیال کا بھی ذکر کیا‘‘۔
جنرل مشرف نے دعویٰ کیا کہ شوکت عزیز مذکورہ خط کے ذریعے ایمرجنسی لگوانا چاہتے تھے لیکن ’میں نے سختی سے اسے مسترد کردیا اور کہا کہ اگر وزیراعظم اس حوالے سے باقاعدہ سمری بھیجیں تو وہ ان کے مشورے کے مطابق ہدایت دے سکتے ہیں۔ اس کے بعد وزیراعظم شوکت عزیز نے مجھے اپنے اسٹاف کے ذریعے سمری بھیجی جو میں نے صدارتی ہاؤس میں وصول کی‘۔
خیال رہے کہ جنرل مشرف نے کبھی بھی ایمرجنسی کے نفاذ کے حوالے سے اپنے کردار کو مسترد نہیں کیا، تاہم ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے یہ اقدام اُس وقت کے وزیراعظم، چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی، سروسز چیف، کور کمانڈرز، اُس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف، گورنرز اور دیگر کی مشاورت کے بعد اٹھایا تھا۔
اپنے دفاع میں ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے یہ اقدام آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے اٹھایا تھا.
انھوں نے تفتیشی ٹیم کو تجویز دی کہ وہ ’نامزد کیے جانے والے متعلقہ افراد سے ملاقات کرے. انھوں نے مزید کہا کہ ان سرکاری اہلکاروں نے کبھی بھی ایمرجنسی کے نفاذ کے معاملے میں مشاورت نہ دینے کو مسترد نہیں کیا ہے اور نہ ہی کبھی اس کی وضاحت کی ہے‘۔
پرویز مشرف کے بیان کے مطابق ’2010 میں ہونے والی اٹھارویں ترمیم کے باعث آرٹیکل 6 میں ترمیم ہوچکی ہے اور اٹھارویں ترمیم کے ذریعے مذکورہ آرٹیکل میں لفظ ’معطل‘ اور ’عارضی التواء‘ کو شامل کیا گیا‘ مزید یہ کہ وہ 2007 میں ان کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدام پر اسے لاگو نہیں کرسکتے۔
انھوں نے مزید کہا کہ انھوں نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کو کہا ہے کہ ’وزیراعظم شوکت عزیز اور ان کی کابینہ کی جانب سے ایمرجنسی کی تجویز اور میری جانب سے اسے منظور کیے جانے پر مجھ پر مقدمہ نہیں بنایا جاسکتا‘۔
یہ خبر 23 دسمبر 2015 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی.
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں.