سائنس و ٹیکنالوجی

'بڑے سیارچے زمین کیلئے خطرہ بن سکتے ہیں'

یہ انتباہ ان خلاءبازوں نے کیا ہے جو خلاءمیں گھومتے بڑے اجسام پر قریبی نظر رکھتے ہیں۔

ہمارے سیارے زمین کو ایک خلائی چٹان کے اثرات سے شدید خطرات کا سامنا ہوسکتا ہے۔

منگل کو یہ انتباہ ان خلاءبازوں نے کیا ہے جو خلاءمیں گھومتے بڑے اجسام پر قریبی نظر رکھتے ہیں۔

زمین پر ٹکرانے والے ان خلائی اجسام پر ہونے والی بیشتر تحقیقی مطالعہ جات میں مریخ اور مشتری کے درمیان سیارچوں کی بیلٹ پر توجہ دی گئی ہے۔

تاہم اس نئی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دریافت ہونے والے بڑے مدار والے سینکڑوں سیارچوں کے ساتھ ساتھ دیگر ممکنہ خطرات کی فہرست کو وسیع کیا جانا چاہئے۔

برف اور مٹی کی یہ گیندیں عام طور پر 50 سے 10 کلومیٹر چوڑی، غیر مستحکم، بیضوی مدار کی حامل ہوتی ہیں اور سورج سے دور دراز واقع سیارے نیپچون سے اپنا سفر شروع کرتی ہیں۔

یہ اجسام مشتری، زحل، یورانس اور نیپچون کو عبور کرتے ہیں جن کی کشش ثقل اکثر کسی سیارچے کو زمین کی دھکیل دیتی ہے اور ایسا 40 ہزار سے ایک لاکھ سال کے درمیان ایک بار ہوتا ہے۔

یہ اجسام جب سورج کے قریب پہنچتے ہیں تو بتدریج ٹکڑوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں اور اسی لیے انہیں دم دار ستارے بھی کہا جاتا ہے اور محققین کا کہنا ہے ' ان کے اثرات ہمارے سیارے پر ناگزیر ہیں'۔

رائل آسٹرونومیکل سوسائٹی کے جریدے آسٹرونومی اینڈ جیو فزکس میں شائع تحقیق کے مطابق ' ان سیارچوں کے انتشار سے وقفے وقفے سے مگر طویل دورانیے جو ایک لاکھ سال تک بھی ہوسکتا ہے، تک بمباری ہوسکتی ہے'۔

تحقیق میں زور دیا گیا ہے ' غیر ارضی عناصر کے اثرات کے خطرے میں صرف زمین کے قریب موجود سیارچوں کو شامل کرنا اس کی شدت اور فطرت کا غلط اندازہ لگانا ہے کیونکہ ایک سیارچے میں اتنا مواد ہوسکتا ہے جو اب تک زمین کے قریب سے گزرنے والے سیارچوں سے بھی زیادہ ہوسکتا ہے'۔

محققین کے مطابق ' گزشتہ تین دہائیوں کے دوران ہم نے زمین اور کسی سیارچے کے درمیان ٹکراﺅ کے خطرے کے تجزیے اور ٹریکنگ پر کام کیا ہے اور ہمارے کام سے عندیہ ملتا ہے کہ ہمیں اپنے پڑوسی سیاروں سے ہٹ کر دور تک دیکھنے کی ضرورت ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم درست ثابت ہوئے تو یہ دور دراز کے سیارچے ایک سنگین خطرہ ثابت ہوسکتے ہیں اور یہ وقت ہے کہ ان کے بارے میں زیادہ بہتر طریقے سے جانا جائے، کیونکہ کسی سیارچے کی بمباری زمین پر سے زندگی کا خاتمہ کرسکتی ہے۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔