صاحبِ کتاب روزنامہ جنگ کے خلیل ناصر کے ہمراہ روزنامہ جنگ میں 100 لفظوں کی کہانیوں کی اشاعت کے بعد ملک کے دیگر اخبارات نے بھی اپنے ادارتی صفحات پر اب اسی طرح کے سلسلے شروع کر دیے ہیں، جبکہ مبشر علی زیدی کا کہنا تھا کہ ان سے بعض ایسے افراد بھی رابطے میں ہیں جو ان کی پیروڈی میں مزید کم الفاظ کی کہانیاں لکھنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔
عمومی طور پر کہانی میں شروع کے جملے تو ایسے لکھے جاتے ہیں جو کہ ہر فرد سے اس کا تعلق جوڑتے ہوں البتہ آخری کا جملہ اس کی پنچ لائن یا اصل نکتہ ہوتا ہے۔
مبشر کی کتاب کی تقریب رونمائی میں شرکت کے لیے آن لائن رجسٹریشن لازمی تھی، اس لیے ہم بھی رجسٹرڈ ہوئے اور وقت سے قبل ہی تقریب میں پہنچ بھی گئے البتہ تقریب شروع ہونے کے بعد شدید افسوس ہوا کہ بعض افراد ایسے بھی تھے جن کی نشستیں خالی تھیں اگر ان تمام افراد کو تقریب میں شریک نہیں ہونا تھا تو رجسٹریشن ہی نہ کرواتے تا کہ وہ افراد شریک ہو پاتے جو مبشر کی باتیں سننا چاہتے تھے. ویسے بھی یہ اب بحیثیتِ قوم ہمارا مزاج ہو گیا ہے کہ 'سیٹ' اپنے نام کروا لو چاہے اس کو کام لانا ہو یا نہ ہو، لیکن کسی اور کے لیے جگہ نہیں چھوڑنی۔
مبشر علی زیدی سے جب سوال کیا گیا کہ ان کی کہانیوں میں رومانوی رنگ کیوں مفقود ہے تو ان کا جواب تھا کہ کیونکہ ان کی کہانیاں ایک اخبار کے ادارتی صفحے پر شائع ہوتی ہیں اسی لیے ان کے موضوعات سیاسی، سماجی یا معاشرتی ہوتے ہیں۔
'100 لفظوں کی کہانی' 160 صفحات پر مشتمل ہے اور آخری صفحے پر چھپنے والی کہانی کا عنوان 'ہدف' ہے، جو کچھ یوں ہے کہ
'ہم نے اس راکٹ میں اناج کی بیسیوں بوریاں رکھ دیں۔
پھر بھی بہت سی جگہ خالی رہی گئی۔
ہم نے اس راکٹ میں کپڑے کے سیکڑوں تھان رکھ دیے۔
ہم نے اس راکٹ میں ہزاروں درسی کتابیں رکھ دیں۔
پھر بھی بہت سی جگہ خالی رہی گئی۔
ہم نے اس راکٹ میں ہزاروں کھلونے رکھ دیے۔
اب وہ بھرا بھرا لگنے لگا۔
ہم نے راکٹ کے نیچے آگ لگا کے اسے چلا دیا۔
وہ ٹھیک نشانے پر لگا۔
اگلے دن تمام اخبارات نے شہ سرخی جمائی
"جدید میزائل کا کامیاب تجربہ"
وسعت اللہ خان صاحب نے مبشر علی زیدی کے لیے کہا ہے کہ "خوش رہو مبشر اور خوش رہیں تمھارے پڑھنے والے۔ مگر ڈرتے رہنا اس گھڑی سے جب کوئی 50 لفظوں میں مؤثر انداز میں کہانی بیان کرنے والا آ گیا۔ تب تم بھی ہماری طرح حیران ہو جاؤ گے کہ یہ کیسے ہو جاتا ہے۔"
ویسے تو ان کی 100 لفظوں کی کہانیاں سوشل میڈیا اور موبائل پر ایس ایم ایس یا واٹس ایپ پر گردش کرتی رہتی ہیں، لیکن عمومی طور پر ان پر لکھاری کا نام نہیں ہوتا، جو کہ افسوسناک بھی ہے. ایسی ہی ایک کہانی ایک نامور صحافی نے اپنے فیس بک کے صفحے پر شائع کی لیکن اس پر مبشر کو ان کا کریڈٹ نہیں دیا، اور وہ کہانی تھی 'علاج'۔
" میں نے ڈاکٹر کی فیس ادا کر کے نمبر لیا
اور استقبالیہ کے سامنے بیٹھ گیا۔
اس اسپیشلسٹ کی فیس کافی زیادہ تھی۔
مریض آتے گئے، نمبر لیتے گئے۔
ایک بوڑھی عورت استقبالیے تک پہنچی۔
اس کی آنکھوں میں امیدوں کے دیے جل رہے تھے۔
فیس سن کر دیے بجھ گئے۔
اس نے بیمار بیٹے سے بات کی۔
دونوں دروازے کی طرف بڑھے۔
میں نے راستہ روک کر اپنا نمبر اور رسید انہیں دے دی۔
مجھے کوئی بیماری نہیں۔
ہر ماہ ایک نمبر کسی مستحق مریض کو دے دیتا ہوں،
پھر پورا مہینہ کسی ڈاکٹر کے پاس جانا نہیں پڑتا۔"
100 لفظوں کی کہانی کے حوالے سے خود مبشر علی زیدی کا کہنا ہے کہ "یہ اتنی مختصر نہیں ہوتیں کہ تشنگی سے تڑپتا چھوڑ دیں، اتنی طویل بھی نہیں ہوتیں کہ سیراب کر دیں۔ صرف ایک گھونٹ ملتا ہے، کچھ پیاس باقی رہ جاتی ہے، تھوڑی سی پیاس رہ جانی چاہیے، تاکہ طلب گار ایک اور گھونٹ مانگے۔"