افغانستان میں داعش کے 3000 جنگجو موجود
کابل: افغانستان میں انٹرنیشنل سیکیورٹی اسسٹنس فورس (ایساف) کے سربراہ جنرل جان فرانسز کیمبل کا کہنا ہے کہ افغانستان میں داعش کے تقریباً 3 ہزار شدت پسند موجود ہیں۔
صحافیوں سے گفتگو میں جنرل جان ایف کیمبل کا کہنا تھا کہ داعش کے جنگجو صوبہ ننگرھار کے مرکزی شہر جلال آباد کو اپنا بیس بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ جلال آباد میں داخل ہو نے کے بعد وہ اثر ورسوخ صوبہ کنڑ تک پھیلانا چاہتے ہیں۔
صوبہ کنڑ بھی ننگرھار صوبے کے ساتھ ہی ہے جبکہ افغانستان کے یہ دونوں علاقے پاکستانی سرحد کے ساتھ واقع ہیں، جلال آباد پاکستانی سرحد تورخم سے 75 کلومیٹر جبکہ دارالحکومت کابل سے 160 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔
ایساف کے سربراہ نے افغانستان میں داعش کے جنگجوؤں کی تعداد ایک ہزار سے 3000 کے درمیان بتائی۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ داعش کے جنگجو گزشتہ 5 سے 6 ماہ میں اکھٹے ہوئے ہیں جبکہ ننگرھار اور کنڑ میں ان کی طالبان سے جھڑپیں بھی ہو رہی ہیں۔
دوسری جانب امریکا کے وزیر دفاع ایشٹن کارٹر نے افغانستان کا ہنگامی اور غیر اعلانیہ دورہ کیا جس میں انہوں نے افغان وزیر دفاع محمد معصوم ستانکزی سے ملاقات کی۔
ملاقات کے بعد ایشٹن کارٹر کا کہنا تھا کہ داعش دنیا بھر میں پھیلنے کی کوشش کر رہی ہے اور اسی طرح افغانستان کے مشرقی علاقوں میں بھی چھوٹی پناہ گاہیں بنا رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ داعش کے ٹھکانوں کا پیچھا کیا جا رہا ہے۔
یاد رہے کہ جان کیمبل نے 11 ماہ قبل کہا تھا کہ داعش افغانستان میں بھرتیاں کر رہی ہے، تاہم اس بیان کے بعد بھی امریکا اور افغان فورسز داعش کو ملک میں مکمل طور پر ختم نہیں کر سکیں۔
یہ بھی پڑھیں : افغانستان میں تنظیم کے سربراہ زندہ ہیں، داعش
خیال رہے کہ داعش نے 8 ماہ قبل صوبہ ننگرھار میں ایک خود کش حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی جس کے بعد طالبان اور داعش میں جھڑپیں بھی ہوئیں جبکہ امریکا کی جانب سے بھی داعش کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔
واضح رہے کہ داعش نے عراق اور شام کے بڑے رقبے پر گزشتہ برس جون میں قبضہ کرکے خود ساختہ خلافت اسلامیہ قائم کی تھی جس کے بعد افغانستان اور اس کے قریبی علاقوں کو خراسان کا نام دے کر نومبر 2014 میں یہاں حافظ سعید کو امیر مقرر کیا گیا تھا۔
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔