انڈیا-آئی اے ای اے معاہدہ : پیپلز پارٹی کا متنازع کردار
اسلام آباد: اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مستقل سفیر ضمیر اکرم پاکستان کی جانب سے 2008 میں انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے ہندوستان کے حوالے سے مخصوص معاہدے کی مخالفت نہ کرنے سے متعلق دیرینہ پر اسرار معاملے اور اس میں کیے گئے ردوبدل سے متعلق حقائق سامنے لائے ہیں.
واضح رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سابقہ حکومت نے امریکا کے دباؤ میں آکر انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے ساتھ ہندوستان کے ایک مخصوص معاہدے کی مخالفت یا اس میں ترمیم یا ووٹ کے لیے کوئی اقدام نہیں اٹھایا تھا. اس طرح آئی اے ای اے بورڈ کی منظوری کے بعد نیوکلیئر سپلائر گروپ (این ایس جی) کی ہندوستان کے ساتھ تجارت کے لیے راہ ہموار ہوگئی تھی.
مزید پڑھیں:جوہری کلب میں ہندوستان کی شمولیت کا امکان
اپنے انکشافات میں سابق سفیر ضمیر اکرم نے اس بات کی وضاحت کی کہ کس طرح پیپلز پارٹی کی حکومت نے پورے معاملے میں اندرونی طور پر ہیرا پھیری کی.
اسٹریٹیجک ویژن انسٹیٹیوٹ میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ضمیر اکرم نے دعویٰ کیا کہ امریکا میں اُس وقت کے پاکستانی سفیر حسین حقانی نے ہندوستان کے معاہدے سے متعلق دفتر خارجہ کی تجاویز کو منسوخ کرنے کے لیے حکومت پر 'شدید دباؤ' ڈالا.
واضح رہے کہ آئی اے ای اے میں پاکستان کے اس وقت کے سفیر نے ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز کو ایک خط لکھا تھا جس میں ہندوستان کے لیے مخصوص معاہدے کی مخالفت کرتے ہوئے اس میں ترامیم کے پاکستانی مطالبے کی حمایت کا کہا گیا تھا.
انھوں نے کہا کہ دفتر خارجہ پر اپنی تجاویز کو تبدیل کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا تھا.
ضمیر اکرم نے بتایا کہ پاکستان نے اپنے اس اقدام کی حمایت کے لیے چین سمیت دیگر دوستوں کو بھی اپنا ہمنوا بنا لیا تھا لیکن اس پہلے کے بورڈ کی میٹنگ ہوتی، اُس وقت کے سفیر حسین حقانی نے اسلام آباد کو اِن خدشات سے متعلق آگاہ کیا کہ اس معاہدے کی مخالفت کے کیا نتائج ہوسکتے ہیں.
حقانی کے اس دباؤ نے کام کر دکھایا اور پاکستان نے یکم اگست 2008 کو ہونے والی بورڈ آف گورنرز میٹنگ میں آئی اے ای اے کے ساتھ ہندوستان کے مخصوص معاہدے کے خلاف ووٹ دینے یا اسے نہ روکنے پر اتفاق کیا.
امریکی وکی لیکس کی جانب سے بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ دفتر خارجہ کی جانب سے ہندوستانی معاہدے پر اعتراض نہ اٹھانے کے حوالے سے نظر ثانی احکامات کے باوجود پاکستان کے سفیر شہباز نے اس کے حوالے سے 'مسلسل ذاتی خدشات' کا اظہار کیا.
پاکستانی سفیر شہباز کی تشویش ماضی سے متعلق تھی، جب ہندوستان نے 1974 کے جوہری ٹیسٹ سے قبل اپنا جوہری مواد سویلینز سے فوجی پروگرام کی طرف منتقل کردیا تھا.
ضمیر اکرم کے مطابق "ہندوستان سے متعلق معاہدے کی مخالفت نہ کرنے کا فیصلہ کرنا ہماری غلطی تھی."
انھوں نے کہا کہ اس سے یہ غلط تاثر ملا کہ جب بھی دباؤ پڑتا ہے تو پاکستان اس کا سامنا نہیں کرسکتا.
ضمیر اکرم نے کہا کہ نیوکلیئر سپلائر گروپ میں شمولیت کی شرائط پر پورا نہ اترنے کے باوجود ہندوستان کو اِس گروپ میں شامل کر کے پاکستان کے ساتھ ایک مرتبہ پھر تجربہ کیا جارہا ہے.
انھوں نے خبردار کیا کہ این ایس جی میں ہندوستان کی شمولیت پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچائے گی.
یہ بھی پڑھیں:'پاکستان سے محدود جوہری ہتھیاروں پر بات چیت'
ضمیر اکرم کے خیال میں پاکستان اور ہندوستان کو ایک ساتھ نیوکلیئر سپلائر گروپ میں شامل کیا جانا چاہیے.
این ایس جی میں شمولیت کی اہمیت کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ کسی ملک کے ایک جوہری ملک کی حیثیت کا طریقہ ہے.
ضمیر اکرم نے بتایا کہ پاکستان پر اس کے جوہری اور میزائل پروگرام کو روکنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا.
انھوں نے کہا کہ حکومت کو مغربی ممالک کو واضح طور پر بتا دینا چاہیے کہ پاکستان اپنا اسٹریٹجک پروگرام بند نہیں کرے گا.
میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی مشیر رچرڈ اولسن نے ہاؤس کی خارجہ امور سے متعلق کمیٹی کو بتایا کہ امریکا نے پاکستان کے محدود جوہری ہتھیاروں پر با معنی بات چیت کی ہے اور پاکستان اس حوالے سے امریکا کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہے.
رپورٹس کے مطابق امریکا نے پاکستان پر اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ وہ اپنے جوہری ہتھیاروں اور میزائل کی صلاحیت کو محدود رکھے، جبکہ ایسے کسی بھی اقدام سے بچنے کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے، جس سے جوہری حفاظت، سیکیورٹی اور اسٹریٹجک استحکام کے لیے خطرہ بڑھنے کا اندیشہ ہو.
اسٹریٹیجک ویژن انسٹی ٹیوٹ کے صدر ڈاکٹر ظفر اقبال چیمہ کے مطابق یہ نہیات مضحکہ خیز بات ہے کہ پاکستان کو تو اُس کے جوہری ہتھیاروں اور میزائل صلاحیت کو محدود کرنے کے لیے کہا جائے جبکہ امریکا خود بھی یہی کر رہا ہے اور دوسری جانب ہندوستان نہ صرف جوہری ہتھیاروں اور بیلسٹک میزائل صلاحیتوں میں اضافے کے لیے مکمل طور پر آزاد ہے بلکہ اسے جوہری صلاحیت میں اضافے کے لیے نئی ٹیکنالوجیز کے حصول کی پیش کش بھی کی گئ، جس سے خطے میں اسٹریٹیجک عدم استحکام پیدا ہوگا.
یہ خبر 19 دسمبر 2015 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں.