'بڑا دشمن بنا پھرتا ہے' کے خالق کی چند باتیں
وہ ایک روشن صبح تھی جب کچھ ننھے پھول اپنی مسحورکن خوشبو کے ساتھ زندگی کی شاہراہ پر گامزن تھے۔ ان چھوٹے چھوٹے قدموں سے بڑی منزلوں کا راستہ طے ہو رہا تھا۔ ان کی آنکھوں میں مستقبل کے خواب جگمگا رہے تھے۔ کتابوں کے حروف ان کی زبان پر شیریں کلام بن کے قہقہوں میں ڈھل رہے تھے، مگر شاہراہِ زندگی کے اس موڑ پر ایک لمحہ ایسا آیا جب منزل سے پہلے آزمائش آن کھڑی ہوئی۔
پشاور میں پیش آنے والے اس ہولناک سانحہ پر یک جنبش ایسا محسوس ہوا جیسے قوم پر سکتہ طاری ہو گیا ہو۔ غم کی شدت اتنی تھی جس کے بیاں کرنے کو الفاظ اور حوصلہ نہیں تھا۔ ایسی فضا میں ایک آواز نے یہ سکوت توڑا، امید کی آواز بن کر ایک گیت گونجا، جس نے سب کو اپنے حُسن بیاں میں سمو لیا۔ اس گیت کو سن کر ایسا محسوس ہوا، درد کی اس گھڑی میں اس تاثیر بھری آواز کی ضرورت تھی۔ اس گیت میں دشمن کے تمام سوالوں کے جواب بھی تھے اور سسکیوں کو تھام لینے کی سکت بھی، یہ مداوا تھا دردِ دل کا اور دوا تھی گھائل روح کے لیے۔
اس گیت نے ساری قوم کو یکجا کر دیا۔ سانحہ پشاور کے بعد جب اسکول دوبارہ کھولے گئے، تو پہلے دن آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اسکول کے دروازے پر خود بچوں کا استقبال کیا۔ بچوں نے بلاخوف اسکولوں کا رخ کیا، یہی وہ گھڑی تھی، جس میں ہماری قوم حقیقی تعمیر کے مرحلے میں داخل ہوئی۔ اتنی عبرت ناک شکست کے بارے میں تو دشمن نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا۔ یہ گیت دشمن کو ہمیشہ اس کی شکست یاد دلاتا رہے گا۔
اس گیت میں شامل گلوکار کی خوبصورت آواز ساحر علی بگا کے صاحب زادے کی ہے جو خود بھی اپنے والد کے نقش قدم پر ہے۔ اس گیت میں وہ صلاحیتیں اپنے عروج پر ہیں، جو کسی فنکار باپ کے فن کی میراث سنبھالنے والی اولاد میں ہوتی ہیں۔ سانحہ پشاور کی پہلی برسی کے موقع پر آئی ایس پی آر کی طرف سے اسی ٹیم کے ساتھ دوسرا گیت ”مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے“ جاری کیا گیا ہے، جس کی فنی جمالیات اسی طرح قائم و دائم ہے، جس کو ہم نے پہلے گیت میں محسوس کیا تھا۔
'بڑا دشمن بنا پھرتا ہے' کی ریلیز کے بعد ایک انٹرویو میں میجر عمران رضا نے کہا ”جب پشاور سانحہ ہوا تو اس وقت میں ایک دستاویزی فلم کی تیاری کے سلسلے میں کراچی میں موجود تھا اور اس صدمے کے باعث تین چار روز تک کام نہیں کر پایا۔ میں چاہتا تھا کہ اس حملے میں بچ جانے والے بچوں سے ملوں اور یہ جان سکوں کہ جب وہ اپنی درسگاہوں میں واپس جائیں گے، تو تب ان کے کیا احساسات ہوں گے۔ میرے سامنے میرا اپنا بیٹا بھی تھا، جو اسکول جاتا ہے۔