پاکستان

پاکستان کی ’عرب اتحاد‘ میں شمولیت کی تصدیق

دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف قائم کیے جانے والے نئے اتحاد کے حوالے سے مزید تفصیلات کے منتظر ہیں، دفتر خارجہ
|

اسلام آباد: ابتدائی ابہام کے بعد پاکستانی حکومت نے سعودی عرب کی قیادت میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے قائم کیے جانے والے 34 اسلامی ممالک کے اتحاد میں شمولیت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس اتحاد میں پاکستانی دائرہ کار کے حوالے سے وہ ریاض کی جانب سے فراہم کردہ تفصیلات ملنے کے بعد آگاہ کرے گا۔

پاکستانی دفتر خارجہ سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’پاکستان اتحاد کی مختلف سرگرمیوں میں شرکت کے حوالے سے مزید تفصیلات کا منتظر ہے‘۔

خیال رہے کہ سعودی عرب نے دو روز قبل یہ اعلان کیا تھا کہ اس نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ کے لیے 34 اسلامی ریاستوں پر مشتمل اتحاد قائم کیا ہے، جس میں پاکستان بھی شامل ہے۔

سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل بن احمد الجبیر نے بعد ازاں اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اتحاد میں شامل کیے جانے والے ممالک اپنی سرگرمیوں کے حوالے سے خود فیصلہ کریں گے۔

مزید پڑھیں: پاکستان عرب فوج اتحاد میں اپنی شمولیت سے بے خبر

اس اتحاد کا مقصد سیکیورٹی تعاون کے لیے ایک پلیٹ فارم دینا ہے، جس میں ٹریننگ، سازوسامان اور فوج اور انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے مذہبی رہنماؤں کی فراہمی شامل ہے۔

گذشتہ روز وزارت خارجہ کے ایک سینیئر عہدیدار نے ابتدائی طور پر پاکستان کو نئے اتحاد میں شامل کرنے پر حیرت کا اظہار کیا تھا اور ان کا کہنا تھا کہ ریاض نے اسلام آباد کو اس حوالے سے اعتماد میں نہیں لیا۔

لیکن اس حوالے سے ہونے والی حالیہ پیش رفت سے اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ سعودی عرب سے خفیہ طور پر اتحاد میں شامل ہونے کا عزم کا اظہار کیا گیا تھا تاہم اس سے دفتر خارجہ آگاہ نہیں تھا۔

دوسری جانب اس حوالے سے قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ پاکستان کی جانب سے نئے اتحاد میں شامل ہونے کی یقین دہانی کس نے کروائی.

پاک فوج نے رواں سال اکتوبر سے انسداد دہشت گردی کے لیے بنائی گئی سعودی اسپیشل فورسز کو ٹریننگ دینے کا آغاز کرتے ہوئے دو طرفہ دفاعی تعلقات کے نئے دور کی شروعات کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: 'دہشتگردی کے خلاف جنگ میں 34 اسلامی ریاستیں متحد‘

چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے خصوصی مشقوں کے بعد سعودی عرب کا دورہ کیا تھا تاکہ انسداد دہشت گردی کی کوششوں پر بات چیت کی جاسکے۔

دفتر خارجہ کے جاری بیان کے ذریعے ریاض کو اُن رپورٹس پر ہونے والی شرمندگی کے خاتمے کی کوشش کی گئی ہے جس میں پاکستان نے اس کو لاعلم رکھتے ہوئے اتحاد میں شامل کیے جانے کے حوالے سے کہا تھا کہ وہ انسداد دہشت گردی کے خلاف اتحاد کو خوش آمدید کہتا ہے۔

واضح رہے کہ دفتر خارجہ کے جاری بیان سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ ریاض کی جانب سے پاکستان کو اس اعلان کے حوالے سے ’کچھ معلومات‘ فراہم کیں گئی تھیں، جیسا کہ بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان مزید ’تفصیلات‘ کا منتظر ہے۔

دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان انسداد دہشت گردی کے خلاف جنگ کی مسلسل حمایت کرتا آرہا ہے اور اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کی کونسل کے بیالیسویں اجلاس میں منظور کی جانے والی قرارداد اراکین سے مطالبہ کرتی ہے کہ ’دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خیالات کے خلاف جنگ میں خطے اور بین الاقوامی کوششوں میں شامل ہوا جائے‘۔

نئے اتحاد کے قیام پر امریکا کا رد عمل

دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ کے لیے بنائے جانے والے اسلامی ممالک کے نئے اتحاد کے حوالے سے امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان جان کربی نے ایک نیوز بریفنگ کے دوران کہا کہ ’ہم کافی عرصے سے اس بات پر زور دے رہے تھے کہ خطے میں موجود ممالک یہ اقدام اٹھائیں، جو خطے میں موجود دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے وقت کی اہم ضرورت ہے‘۔

’ہم اسے خوش آمدید کہتے ہیں، جیسا کہ ہم نے خطے میں داعش اور دیگر عسکریت پسند تنظیموں کے خلاف کسی بھی قسم کے انتہائی اقدام کو خوش آمدید کہا تھا۔ ان تنظیموں پر دباؤ ڈالنے کے لیے کی جانے والی ہر کوشش کو خوش آمدید کہا جائے گا ۔‘

انھوں نے کہا کہ امریکا تفصیلات کا انتظار کررہا ہے کہ یہ فورس کیسے کام کرے گی تاہم ساتھ ہی انھوں نے اس بات کی نشاندہی بھی کردی کہ سعودی عرب کے اعلان سے اس کا وسیع خاکہ سامنے آگیا ہے۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے مزید کہا کہ نئے قائم کیے جانے والے اسلامی ممالک کے اتحاد میں شامل 34 ممالک پہلے سے ہی داعش کے خلاف موجود 65 ممالک کے اتحاد کا حصہ ہیں۔

یہ خبر 17 دسمبر 2015 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں.