نقطہ نظر

'اشتہاری' اردو کا 'نیچرل' نقصان

اشتہار چاہے جس بھی زبان میں ہو، اگر درست زبان استعمال کی جائے تو اشتہار پڑھنے اور دیکھنے والے پر اچھا تاثر چھوڑے گا۔

تحریر میں الفاظ کا انتخاب بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ آپ کا پیغام اس وقت درست انداز میں قاری تک پہنچتا ہے جب آپ اس میں الفاظ اور زبان کا خیال رکھتے ہوئے اپنی بات قاری تک پہنچاتے ہیں۔ اسی طرح اشتہار سازی میں بھی یہ ہی قانون لاگو ہوتا ہے بلکہ اگر دیکھا جائے تو زیادہ شدت سے لاگو ہوتا ہے کہ اشتہار میں آپ نے کم جگہ، کم الفاظ اور کم وقت کو استعمال کرتے ہوئے اپنی بات کو خریدار تک پہنچانا ہوتا ہے۔ اشتہار میں درج الفاظ پڑھ کر ہی قاری فیصلہ کرتا ہے کہ آیا اشتہار میں جس چیز کی اتنی خوبیاں بیان کی جا رہی ہیں اس کو خریدا جائے یا نہیں۔

ہر گزرتے دور کے ساتھ اشتہار سازی کی صنعت میں جدت آتی جا رہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اشتہار میں استعمال ہونی والی زبان بھی مختلف مراحل سے گزر رہی ہے۔

اشتہار چاہے انگریزی زبان میں ہو یا اردو میں، اگر زبان، قواعد اور املا کا خیال رکھا جائے، تو پڑھنے اور دیکھنے والے پر اچھا تاثر چھوڑے گا۔ اگر ان چیزوں کا خیال نہیں رکھا جائے گا، تو پڑھنے والا اگر تعلیم یافتہ ہے، تو آپ کے اشتہار میں موجود اغلاط سے وہ آپ کی مشتہر کی جانے والی چیز کے بارے میں اچھی رائے قائم نہیں کرے گا۔ اگر اشتہار پڑھنے والا تعلیم یافتہ نہیں ہے تو وہ آپ کے اشتہار میں موجود غلط زبان اور املا کو درست مان کر اس کی ترویج کا باعث بن سکتا ہے جو آگے جا کر زبان میں بگاڑ کا سبب بن جائے گا.

اشتہار ساز ادارے مصنوعات کی تشہیری مہم تیار کرتے وقت زبان سے زیادہ اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ کون سے الفاظ اور جملے زدِ عام ہو سکتے ہیں۔ اس عمل میں سب سے زیادہ نقصان زبان کو پہنچتا ہے۔ بچے غلط الفاظ سیکھ لیتے ہیں جن میں بعض اوقات تہذیب عنقاء ہوتی ہے۔ اشتہارات سے لوگ اسی قبیل کی زبان سیکھتے ہیں اور روز مرہ کی زندگی میں استعمال کرتے ہیں۔ ایک قابلِ ذکر رجحان یہ بھی نظر آتا ہے کہ 'او لالا' یا اس طرح کے یتیم الفاظ لوگوں کی زندگی اور زبان میں داخل ہوتے جا رہے ہیں جو زبان کے لیے ایک بڑا نقصان بنتا جا رہا ہے۔

پڑھیے: میڈیا میں اردو زبان کا غلط استعمال

پرنٹ ہونے والے اشتہارات میں اگر زبان کو دیکھا جائے تو وہاں املا کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ یہ دو طرح سے تباہ کن ہے، اول غلط زبان، دوم غلط املا، کیونکہ غلط لکھے ہوئے سے لوگ غلط لکھنا بھی سیکھتے ہیں۔ میں نے ایک مشہور میگزین کے دو ماہ میں شائع ہونے والے سات شماروں کا انتخاب کیا، اور اس میں شائع ہونے والے اشتہارات کا جائزہ لیا۔ ذیل میں دیے گئے جدول میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کتنے فیصد اشتہارات میں زبان کی اغلاط موجود ہیں۔

ایک مشہور میگزین میں شائع ہونے والے اشتہارات

ایک قومی سطح پر شائع ہونے والے جریدے میں بڑے پیمانے پر اردو انگریزی پر مشتمل اور زبان و املا کی اغلاط سے بھرپور، یا پھر غیر مناسب الفاظ پر مشتمل اشتہارات کا شائع ہونا تعجب کی بات ہے۔ گو کہ اشتہارات میں زبان کی خرابی کے ذمہ دار اشتہار ساز ادارے ہی ہوتے ہیں، مگر کسی حد تک شائع کرنے والے بھی شریکِ جرم بن جاتے ہیں۔ مدیران کو دیکھنا چاہیے کہ ان کے زیرِ نگرانی شائع ہونے رسالے میں جو اشتہارات چھپ رہے ہیں اور زدِ عام ہو رہے ہیں وہ کس قدر برے اثرات قوم کے بچوں کے اخلاق اور ان کی زبان پر ڈال رہے ہیں۔

23 اگست کے شمارے میں سات اشتہار شائع ہوئے، جن میں سے زیادہ تر اشتہار بڑے کاروباری اداروں کے تھے۔ اکثر اشتہار انگریزی اردو زبان کا امتزاج تھے، اور بعض میں زبان کی اغلاط موجود تھیں۔ ہم یہاں دو اشتہار پیش کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کس طرح سے ان اشتہارات میں بہتری کی گنجائش نکالی جا سکتی ہے۔

ایک مشہور مشروب کے اشتہار میں انگریزی زبان کے لفظ 'نیچرل' کی جگہ اگر قدرتی استعمال کر لیا جاتا تو اس سے جملے کی خوبصورتی پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اس طرح 'فیورٹ' کی جگہ پسندیدہ کا لفظ استعمال کیا جا سکتا تھا۔ یہ اشتہار مکمل طور پر اردو میں بنایا جا سکتا تھا، اور بازار میں مشروب کی فروخت کا جو حصہ ہے وہ باتیں بھی اردو میں بتائی جا سکتی تھیں۔

ایک اور اشتہار ایسا ہے، جس میں جگہ جگہ انگریزی کے الفاظ کے ساتھ الفاظ غیر ضروری طور پر استعمال کیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ پراڈکٹ ایجاد کرنے کی وجہ "بجلی کی قلت اور بے پناہ لوڈشیڈنگ" ہے۔ یہ دونوں الفاظ ایک ہی مطلب میں استعمال ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ اسی اشتہار میں ملٹی نیشنل کی جگہ کثیر القومی استعمال کیا جا سکتا تھا۔

مزید پڑھیے: میری اردو بہت خراب ہے!

30 اگست تا 5 ستمبر کے شمارے میں 12 اشتہار شائع ہوئے جن میں کچھ اشتہارات میں یتیم الفاظ استعمال کیے گئے، جیسے ایک اشتہار میں چمک کی علامت کے لیے لفظ 'چکا چک' جیسا لفظ استعمال کیا گیا جو مناسب نہیں، اور خاص طور پر بولی وڈ کی فلموں میں بدمعاشوں کی زبان سے لیا گیا محسوس ہوتا ہے۔

کچھ اشتہار ایسے بھی تھے جن میں زبان کی غلطیوں کے ساتھ ساتھ انگریزی کا استعمال بھی کیا گیا تھا۔ مثال کے طور پر ایک اشتہار میں سکن کی جگہ جلد استعمال کیا جا سکتا تھا، اور بِن کی جگہ بنا یا بغیر ہونا چاہیے تھا۔ اسی طرح فریش کی جگہ تر و تازہ استعمال کرنے سے جملے کی خوبصورتی میں اضافہ ہو سکتا تھا۔

2004 میں ایک امریکی تحقیق کار ایم ایس گسبرجین نے اپنی ایک تحقیق پیش کی جو اشتہار سازی میں زبان کی تبدیلی کے موضوع پر تھی۔ گسبرجین کے مطابق الفاظ تصاویر کو سہارا دیتے ہیں اور اشتہاروں میں غلط اور مہمل الفاظ کے استعمال سے پورے اشتہار کے ضائع ہونے کا احتمال ہوتا ہے۔ زبان کا بگاڑ جہاں معاشرے میں غلط تربیت کا ماحول پیدا کر دیتا ہے وہاں مہمل الفاظ معاشرے میں رائج ہو جاتے ہیں۔

گسبرجین کی تحقیق میں 1980 سے لے کر 2000 تک کے اشتہارت کا جائزہ یہ بتاتا ہے کہ کسی بھی اشتہار میں زبان کے غلط استعمال ہونے کا تناسب 56 فیصد ہوتا ہے، جبکہ اشتہار سازی میں زبان کی اہمیت تصاویر سے زیادہ ہوتی ہے اور درست الفاظ کا استعمال کسی بھی اشتہار میں چار چاند لگا سکتا ہے۔

موجودہ دور میں بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ اشتہار ساز ادارے زبان دانوں کی مدد سے اپنے لکھاری حضرات کو تربیتی کورس کروائیں تاکہ جب کوئی بھی اشتہار لکھا جائے تو درست زبان استعمال ہو سکے، ورنہ غلط زبان کے استعمال سے آپ کے اشتہار اور مصنوعات سے زیادہ زبان کو نقصان پہنچے کا احتمال ہے۔

علوینہ مشتاق

علوینہ مشتاق جامعہ کراچی سے صحافت میں ماسٹرز کر رہی ہیں، اور معاشرتی مسائل اور ان کے سدِباب پر لکھتی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔