سونڈا: صدیوں کی داستانیں کہتا قبرستان
جب ہم گزرے وقت کا ذکر کرتے ہیں تو ہم پر ایک عجیب سی کیفیت کی چادر تن جاتی ہے، اور ماضی کا تصور جتنا قدیم ہوتا جاتا ہے ایک دھند چھانے لگتی ہے۔ اس دھند میں ایک سحر پوشیدہ ہوتا ہے جو آپ کو ماضی کے ان دنوں میں لے جاتا ہے، جو ہم نے کبھی نہیں دیکھے، بس کتابوں کے اوراق پر جمے الفاظ ہمیں سناتے ہیں اور ہم ذہن میں ان دنوں کو بننے لگ پڑتے ہیں۔
تھوڑا تصور کریں جب رچرڈ برٹن سخت سردیوں کے موسم میں اس علاقے "سونڈا" سے گزرا تھا، تب شب و روز کیسے ہوں گے؟ وہ تحریر کرتا ہے کہ: "ہم صبح سے تین بار راستہ بھول چکے ہیں۔ سخت سردی ہے اور ہم پہاڑیوں سے اترتے ہیں تو زرخیز زمین آجاتی ہے۔ چار سو خاموشی ہے اور بس مختلف پرندوں کی بولیاں سن رہے ہیں۔ کہیں کہیں گندم کے کھیت بھی نظر آتے ہیں۔"
لیکن اب اس علاقے میں کوئی خاموشی نہیں ہے۔ راستے ہیں کہ آتی جاتی گاڑیوں کے شور سے بھرے پڑے ہیں۔ مجھے نہیں پتہ کہ 'تحفتہ الکرام' کے مصنف کی بات میں کتنی صداقت ہے کہ اس شہر کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس خطے میں ایک کامل بزرگ رہتے تھے جو 'سر سونڈر' کے راگ کو بے حد پسند کرتے تھے اور خوش ہوکر حاجت مندوں کی مرادیں پوری کیا کرتے تھے۔ چنانچہ عام لوگوں کی زبان پر یہ خطہ اسی راگ کے نام سے مشہور ہوگیا۔ جب جام تماچی نے اس شہر کی بنیاد رکھی تو اس نے بھی اس کا یہ ہی نام رکھا۔