پاکستان

پارا چنار دھماکے میں ہلاکتوں کی تعداد 22 ہو گئی

لشکر جھنگوی العالمی نے حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے خبردار کیا کہ علاقے کے لوگ شام جنگ سے دور رہیں.
|

پشاور: عسکریت پسند تنظیم لشکر جھنگوی العالمی نے کرم ایجنسی کے ایک مصروف بازار میں بم دھماکے میں 22 افراد کی ہلاکت کی ذمہ داری قبول کر لی۔

اتوار کو پاک- افغان سرحد کے قریب پارا چنار کے عید گاہ لنڈا بازار میں ہونے والے زور دار دھماکے میں ہلاکتوں کی تعداد 22 ہو گئی جبکہ 50زخمی ہیں۔

تنظیم کے ’ترجمان ‘ علی بن سفیان نےمیڈیا کو بھیجی گئی ایک ای میل پیغام میں دھماکے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ایران اور بشار السد کی حمایت کرنے کا بدلہ لینے کیلئے بازار میں آئی ای ڈی کے ذریعے بم دھماکا کیا۔

’ہم شیعہ والدین کو خبردار کرتے ہیں کہ اگر انہوں نے بشار السد کی جنگ میں اپنے بچوں کو بھیجنے سے نہ روکا تو آئندہ بھی انہیں ایسے حملوں کا سامنا رہے گا‘۔

پولیٹیکل حکام کے مطابق لاشوں اور زخمیوں کو ایجنسی ہیڈ کوارٹر اسپتال منتقل کر دیا گیا.

تعطیل کے باعث بازار میں عمومی دنوں سے زیادہ رش تھا، جس کے باعث حکام نے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ بھی ظاہر کیا تھا.

دھماکے کے بعد سیکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے کر تفتیش شروع کردی۔

ڈان نیوز نے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ دھماکے کے مقام سے 2 مشتبہ افراد کو حراست میں بھی لیا گیا جنہیں مزید تفتیش کے لیے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا۔

ترکمانستان میں موجود وزیر اعظم نواز شریف نے پارا چنار دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے متاثرین سے اظہار تعزیت کیا جبکہ زخمیوں کو بہتر طبی سہولیات فراہم کرنے کی ہدایت کی۔

نواز شریف نے بیان میں کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ سے پیچھے ہٹنے کی گنجائش نہیں۔

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے متعلقہ اداروں سے رپورٹ طلب کی۔

خیال رہے کہ جولائی 2013 میں بھی پارا چنار بازار میں دھماکے ہوئے تھے جن میں 57 افراد ہلاک اور 167 افراد زخمی ہوئے تھے جبکہ پارا چنار میں ہی نومبر 2014 میں ہونے والے دھماکے میں ایک بچے سمیت 2 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

واضح رہے کہ پارا چنار پاک افغان سرحد پر قبائلی علاقے کرم ایجنسی کا انتظامی ہیڈ کوارٹر ہے، یہ زیادہ آبادی والا علاقہ نہیں ہے، اس علاقے کی آبادی 40ہزار کے قریب ہے جس میں مختلف قبائل،نسل اور عقائد کے لوگ شامل ہیں جبکہ یہ علاقہ 1895 میں انگریزوں نے تعمیر کیا تھا۔

2007ء میں اس علاقے ہونے والی فرقہ ورانہ جھڑپوں کے بعد فوج اور نیم فوجی دستوں نے یہاں کی شاہراہوں پر چوکیاں قائم کی تھیں۔

اگرچہ وہاں پر فوج اور مقامی قبائلی رضا کاروں پر مشتمل چوکیاں قائم ہیں لیکن کُرّم ایجنسی اور اورکزئی ایجنسی میں دشوار گزار پہاڑی راستے ہیں جہاں سے عسکریت پسند دوسرے علاقوں میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔

پاکستان کی قبائلی علاقوں شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب-عضب اور خیبرایجنسی میں آپریشن خیبر (ون اور ٹو) کے بعد عسکریت پسند دوسرے علاقوں میں حملوں کی کوشش کر رہے ہیں۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں