تعصب ہمارے نصاب میں
جس ملک میں نصابی کتب میں نفرتوں، قانون شکنیوں اور کدورتوں کی بھرمار ہو، جس ملک میں خود اساتذہ تعصبات کی عملی تصویر ہوں، دانشور و میڈیا تجزیہ کرتے ہوئے مذہبی، لسانی، قومیتی اور فرقہ وارانہ ترجیحات کو اولیت دیتے ہوں اور ریاستی ادارے بھی انہی تعصبات کو مقدم رکھیں، وہاں بھلا قومی ایکشن پلان کیونکر کامیاب ہو سکتا ہے؟
دنیا بھر کے تعلیمی ماہر اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ اگر آپ کی اسکول کی تعلیم بردباری، قانون کی حاکمیت، جدیدیت اور رنگا رنگی (diversity) کی ترویج نہیں کرتی تو آپ کی نئی نسل کنفیوژن، لاتعلقی اور آزادی کے دھوکے میں غلطاں ہو کر اپنی ہی صورت بگاڑ لیتی ہے۔ بالعموم جنوبی ایشیاء اور بالخصوص پاکستان ایسی ہی صورتحال کا شکار ہے۔
میں گذشتہ 10 سال سے پاکستان کے تعلیمی بندوبست پر کام کر رہا ہوں۔ 2007ء میں ایک قومی کمیشن (2010-1998 کی تعلیمی پالیسی کا وسط مدتی جائزہ) کے ساتھ بطور محقق کام کرتے ہوئے مجھے 1947ء سے تادم تحریر 13 سے زیادہ سرکاری تعلیمی دستاویزات تفصیل سے پڑھنے کا موقع ملا۔ 2010ء اور 2015ء میں دو بار میں نے سرکاری سطح پر چھپنے والی نصابی کتب کا جائزہ لیا اور پانچ مضامین یعنی اُردو، انگریزی، اسلامیات، مطالعہ پاکستان اور اخلاقیات کی دسویں جماعت تک نصابی کتب کو جستہ جستہ پڑھا۔
اس دوران نجی اسکولوں میں پڑھائی جانے والی انہی مضامین کی کتب کو بھی دیکھا جن میں اشرافیہ (Elite) کے اسکولوں سے لے کر 200 روپے سے کم فیس والے اسکول بھی شامل تھے۔ علاوہ ازیں 2009ء سے تسلسل سے سرکاری و نجی اسکولوں میں جا کر اساتذہ اور دیگر عملے سے ملاقاتیں بھی کیں اور تعلیمی ماحول کا جائزہ بھی لیا۔
1980ء کی دہائی سے ہم تعصبات اور نفرتوں سے لیس جو نسل تیار کر رہے ہیں، ان میں سے بیشتر آج پاکستان کے سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں مختلف حیثیتوں میں براجمان ہیں۔ وہ اگر عورتوں اور اقلیتوں کے خلاف ہیں تو یہ وہ سبق ہے جو وہ اپنے اپنے اسکولوں سے لے کر آئے ہیں۔ میں 1970ء سے 1980ء تک لاہور کے ایک سرکاری اسکول میں پڑھا، مگر مجھے دسویں جماعت تک یہ معلوم نہ تھا کہ میری کلاس میں کس کس مسلم مکاتب فکر (فرقہ) تعلق رکھنے والے طالب علم ساتھی پڑھ رہے ہیں۔
مگر جو بچے 1990ء میں سرکاری و نجی اسکولوں میں پڑھ رہے تھے انہیں اس بات کا ادراک بھی تھا اور ان میں فرقہ وارانہ جراثیم بھی بدرجہ اتم موجود تھے۔ میں نصابی کتب میں تعصبات کے حوالہ سے کچھ مثالیں پنجاب کریکلم و ٹیکسٹ بک بورڈ کی 15-2014 کی کتب سے دوں گا تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ ہم اپنے بچوں کو آج کے دور میں بھی کیا پڑھا رہے ہیں۔
2010ء تک سرکاری سطح پر تعصبات پر مبنی کتب چھاپنے کا فریضہ مرکزی کریکلم ونگ، وزارتِ تعلیم اسلام آباد تن تنہا ادا کرتا تھا مگر 18 ویں ترمیم کے بعد یہ بوجھ چاروں صوبوں کے ٹیکسٹ بک بورڈ اٹھا چکے ہیں۔ پنجاب میں تو پھر بھی 2010ء کے بعد غیر مسلموں کے لیے اسلامیات کے بجائے اخلاقیات کی کتب چھاپنے سمیت نصابی کتب میں کچھ قابل قدر اضافے بھی ہوئے ہیں مگر بالعموم نجی و سرکاری نصابی کتب میں تعصبات کی بھرمار تاحال ہمارا منہ چڑا رہی ہے۔
یہ تعصبات دیہی زندگی کے خلاف بھی ہیں اور مذہبی، فرقہ وارانہ تعصبات بھی ہیں۔ جن انتہاپسندیوں کے خلاف لڑنے کا مصمم ارادہ قومی ایکشن پلان میں سیاسی اور عسکری قیادتوں نے کیا ہے، ان تعصبات کی نصابی کتب میں موجودگی اس ارادہ کی کاٹ ہے۔ آپ چند ایک مثالوں کا خود جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ ہماری نصابی کتب میں کیا درج ہے۔ مطالعہ پاکستان ساتویں جماعت، ص 57 اور مطالعہ پاکستان آٹھویں جماعت، ص 70 پر ہندوﺅں کے خلاف یہ تحریریں موجود ہیں۔