سکڑتے وسائل اور برباد ہوتی ماحولیات کا درد
جب ہم ماحولیات کی بات کرتے ہیں تو ہم کسی اور سیارے کا ذکر نہیں کر رہے ہوتے بلکہ اپنے مستقبل کی ہی بات کر رہے ہوتے ہیں۔
کراچی سے اگر ٹھٹھہ کے لیے نکلیں تو ٹول پلازہ کی دروازوں والی دیوار سے گزرتے ہی بہت کچھ پیچھے چھوٹ جاتا ہے۔ بڑی عمارتیں، وسیع راستے، خوبصورت سی گلیاں، گہما گہمی، شور و غُل، تارکول کے سیاہ راستوں پر چلتی گاڑیاں اور اُن کا شور، لوگوں سے بھرے ریلوے اسٹیشن، ایئرپورٹ پر اُترتے اور پرواز کرتے ہوئے اُڑن کھٹولے، یعنی آپ منظروں کی ایک ضخیم سی کتاب چھوڑ کر نکل آتے ہیں۔
ٹھٹھہ سے گزر کر ہم سجاول آتے ہیں اور پھر سجاول سے آپ جنوب کی طرف چلتے جائیں تو سمندر اپنے ہونے کا احساس دلانا شروع کردیتا ہے۔ کہیں کہیں زمین میں شوریدہ سفیدی کی ایک تہہ نمودار ہونے لگتی ہے، تو کہیں راستے کے مشرقی اور کبھی مغربی کنارے پر جھاڑی دار درختوں کی باڑ میں چھوٹے چھوٹے گاؤں نظر آنے لگتے ہیں۔ پھیکے پھیکے سے اور بے رنگ۔ جنھیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے ابھی اُگے ہیں .